رات بھر مجھے جگائے رے
آنکھ بند کر نہ چاہو رہے یا تیری پھر ستائے رہے
کسوں کے کافلوں کا راہوں کا منزلوں کا کارواں چلتا جائے
چلنے ستاروں میں
نیند کے پزاروں میں آہٹیں بڑھتی جائے رہے
چند میں ستاروں میں نیند کے پزاروں میں
آہٹیں بڑھتی جائے رہے
سپنوں کو
کروٹوں کو یادوں کو
بھلچنوں کو
رات بڑھتی جگائے رہے
آہ کلکی احسان نہ دے رہے