سامائین حضرات
اسلام علیکم
فاطمہ میزو پینٹی جے جنیجہ جی پیش کرنے جا رہے ہیں
ایک بہت ہی درد بھرا اور نصیحت بھرا واقعہ
انبان ہے بھوکی ماں دیکھئے حضرات ایک بہو اپنی ساس پر کس طرح سے
ظلم اڈھاتی ہے اور بیٹا اپنی ماں سے کتنی محبت کرتا ہے میں اس
واقعے میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں اس کے فنکار ہے شکیل اشفاق
قبوال اور اینا بدایوں اس واقعے کو لکھا ہے ہندوستان کے مشہور
شاعر جناب عمران سرفراز نے میزو سے سجایا ہے کشور ملہترہ جی
نے اس کی ریکاوڈنگ کی ہے مسٹر چندر گاندی جی نے ایس کلیانی اسٹوڈیو
دریا گن نئی دلی اس کے سیوجک ہیں دیوندر خدان ادی تو لیجی حضرات یہ
بھوکی ماں کا واقعہ میں آپ کو یہاں سے سنانے جا رہا ہوں اگر یہ
واقعہ آپ کو اچھا لگے تو مجھے کمنٹس باکس میں ضرور لکھ کر بتائیں یہ
واقعہ آپ کو کیسا لگا میں آپ کے لیے اسی طرح کے واقعات سناتا رہوں
گا تو لیجی حضرات میں یہ واقعہ آپ کو یہاں سے سنانے جا رہا ہوں ملائے
دیکھئے
سنو گے تم جو یہ قیسہ تو پلکیں بھیگ جائیں گی
کہانی بھوکی ماں کی ہے بسندی موران آئے گی
سنو گے تم جو یہ قیسہ تو پلکیں بھیگ جائیں گی
کہانی بھوکی ماں کی ہے بسندی موران آئے گی
بنا رسمی تھی ایک بڑھیا عمر ستر برس کی تھی
نہ تھا خوابند بڑھیا کا کئی برسوں سے بیوا تھی
بہون بیٹے کے سنگ رہ کر گزارا اپنا کرتی تھی
ظلم اس پہ بہون اس کی شبوں دن رات کرتی تھی
خبر بیٹے کو نہ تھی یہ کہ بیوی ظلم کرتی ہے
کھتاتی ماں کو ہے بیوی نہیں کھانے کو دیتی ہے
وہ جب تک گھر پہ رہتا تھا صحیح سے پیش آتی تھی
جو شوہر گھر سے جاتا تو ستم ہو ماں پہڈھاتی تھی
کراتی گھر کا سارا کام بوڑھی ساس سے اپنی
اگر کچھ رہ بھی جاتا تو سناتی ساس کو اپنی
اگر رہنا ہے اس گھر میں تو کرنا کام بھی ہوگا
مفت کا ایک لکمہ بھی میسر ہی نہیں ہوگا
بڑی محنت مشکت سے میرا شوہر کماتا ہے
تبھی یہ رزق اے بڑھیا ہمارے گھر میں آتا ہے
فری کا ایک دانا بھی تجھے بڑھیا نہیں دوں گی
کرے گی کام جب سارا تبھی کھانے کو میں دوں گی
غریبہ مفلسہ کمزور بڑھیا غم کی وہ ماری
نہ ہوتا کام اس سے پھر بھی کرتی کام بیچاری
بہو بستر پہ بیٹھی بیٹھی دن بھرے کھلتی پبزی
مزے لیتی موائل کے تھی دن بھر ایش وہ کرتی
ضعیفہ ہاں پتی جاتی مگر کرتی بھی کیا کرتی
نہیں ہوتا تھا اب اس سے مگر سب کام وہ کرتی
صبح ایک روز شوہر جب گیا عورت کا گھر سے تو
گئی نزدیک بڑھیا کے کہا چل جا کے برطن دھو
کہا بڑھیا نے بیٹا آج طبیت میری گڑھ بڑھ ہے
نہیں ہے جان بلکل جسم میں اٹھنا بھی مشکل ہے
ذرا تو رہم کھاؤ اس بڑھا پیپر میرے بیٹی
عمر ابو یہ نہیں میری یہ سارے کام کرنے کی
تیرے شوہر کی روٹی آج سے ہرگز نہ کھاؤں گی
کمائی تیرے شوہر کی نہ اپنے پر لگاؤں گی
تیرے شوہر کی روٹی آج سے ہرگز نہ کھاؤں گی
کمائی تیرے شوہر کی نہ اپنے پر لگاؤں گی
پڑا رہنے دو ایک کونے میں اپنے لال کے گھر میں
کروں گی اس سے نہ تیری شکایت چپ رہوں گی میں
بہو بولی نہ کر ناٹک جا گھر کا کام ہو کر سارا
چھڑیے دیکھ لے ورنہ سجا دوں گی بدن سارا
چھڑی دیکھی ضعیفانے تو اٹھ کر کام کرتی ہے
نہیں تیتاو بلکل بھی وہ چکر کھا کے گرتی ہے
ستم گر وہ بہو آ کر اسے ٹھوکر لگاتی ہے
نہیں اٹھتی ہے بڑھیا تو چھڑی اس پہ چلاتی ہے
چھڑی کی چوٹ سے بھی ہوش جب اس کو نہیں آیا
بہو کو تب وہ یقین ہوتا ہے کہ چکر اسے آیا
وہ تب یہ سوچتی ہے اب نہیں یہ کام کی کچھ بھی
رہے گی جو یہاں گھر میں بنے گی بوجھ میرا ہی
نکالوں اب اسے گھر سے تب ہی میں چین پاؤں گی
جو شوہر آ کے پوچھے گا بہانا کچھ بنا دوں گی
ضعیفہ ہوش میں آئی تو بولی یہ بہو اس سے
رکھوں گی تجھ کو اب میں نہ نکل جا
تو میرے گھر سے
ضعیفہ ہوش میں آئی تو بولی یہ بہو اس سے
رکھوں گی تجھ کو اب میں نہ نکل جا
تو میرے گھر سے
نہیں تو تیرے بیٹے کو زہر دے کر میں ماروں گی
اسے رکھنا ہے زندہ تو یہ کہہ دے گھر سے جاؤں گی
ضعیفہ کہتی ہے اس سے بہو ہری گزیے نہ کرنا
چلی جاتی ہوں گھر سے زہر بیٹے کو نہ دے دینا
میرا کیا کٹے گئی ہے چند ساسے ہی بچی ہیں اب
میرے بیٹے کی تو پوری پڑی ہے زندگی ہے سبوں
میں اپنے لال کی خاطر یہ قربانی بھی دے دوں گی
چلی جاؤں گی اس گھر سے کبھی واپس نہ آوں گی
مگر ہے التجا میری میرے بیٹے کو خوش رکھنا
دیا ہے ساتھ جو میرے کبھی نہ اس کے سنگ کرنا
میں اب جاتی ہوں دل پر پوجھ لے کر تیری باتوں کا
خدا تجھ کو ہدایت دے تجھے احساس ہو اس کا
کئی دن کی ضعیفہ بھوکی پیاسی گھر سے جاتی ہے
لبوں سے کچھ نہیں کہتی مگر دل دل میں روتی ہے
نہیں ہے تاؤ چلنے کی مگر وہ چلتی جاتی ہے
نہ جانے کون سی منزل کی جانب بڑھتی جاتی ہے
نہیں ہے تاؤ چلنے کی مگر وہ چلتی جاتی ہے
نہ جانے کون سی منزل کی جانب بڑھتی جاتی ہے
یہ دی دی ماں نے قربانی نہ آئے آنچ بیٹے پر
ستم اس پر کوئی ٹوٹے نہ آئے تاؤ بیٹے پر
جب آیا کام اسے بیٹا نہ دیکھا اس نے ماں کو تو
نہیں دکھتی کہیں امی بتاؤ ہے کہاں پر وہ
کہا شوہر سے بی بی نے گئی ماں مو کے گھر ہیں وہ
وہ آ جائے گی جلدی ہی پریشا آپ اب مت ہو
چلو مو ہاتھ دھولو آپ کو میں چائے لاتی ہوں
پھر اس کے بعد میں پکوان اچھے سے پکاتی ہوں
بھیلا کر چائے شوہر کو کڑھائی رکھ دی چولے پے
دہ گوٹ تھا جو چولا تو بھرا پھر گھی کڑھائی میں
لگا جب کھولنے گی تو اٹھی چھلنا اٹھانے کو
جو اس کا پیر فسلا تو کڑھائی پر گری جا وہ
سنی جو چیخ بی بی کی تو آیا بھاگ کے شوہر
اٹھایا اس نے بی بی کو دواغ کھانے گیا لے کر
شہر کے نامی ڈاکٹر سے علاج اس نے تھا کروایا
مگر پوری طرح چہرہ جلانا ٹھیک کر پایا
کہا ڈاکٹر نے اب اس سے زیادہ ٹھیک نہ ہوگی
کہا شہر نے اب اس سے زیادہ ٹھیک نہ ہوگی
جلی ہے، اس طرح چمڑی صحیب بالکل نہیں ہو گی
جلی ہے، اس طرح چمڑی صحیب بالکل نہیں ہوگی
جلی ہے، اس طرح چمڑی صحیب بالکل نہیں ہوگی
جب آیا ہوش بیوی کو ہوا احساس تب اس کو
ستایا تاس کو میں نے صبر اس کا پڑا مجھ کو
بڑی جلدی ہی اللہ نے سزا مجھ کو ہے دے ڈالی
جلا چہرا لیے گوموں عمر بھر شکلیے کالی
کہا شوہر سے میں نے ساس کے سنگ بد گمانی کی
بہت ان کو ستایا ہے سزا جس کی مجھے دے دی
نہیں ماں مو کے گھر گئی وہ انہیں گھر سے نکالا تھا
انہیں کھانا نہ دیتی تھی ظلم ہر ان پہ ڈھایا تھا
کہیں سے ڈھونڈ کر لاؤ میں ان سے مانگ لو معافی
تب ہی میں چین پاؤں بھی اگر وہ معاف کر دے گی
کہا شوہر نے ظالم یہ غزب تو نے وہ کر ڈالا
نہیں جس کی کوئی معافی گنا ایسا ہے کر ڈالا
میری جنت کو تو نے کس طرح سے رونڈ ڈالا ہے
برازہ حشر بھی مو تیرا کالا ہونے والا ہے
میری جنت کو تو نے کس طرح سے رونڈ ڈالا ہے
برازہ حشر بھی مو تیرا کالا ہونے والا ہے
میری بھی آخرت تیری وجہ سے اب بگڑ گئی ہے
تجھے تو تیرے کرموں کی سزا دنیا میں مل گئی ہے
گیا بیٹا وہ ماں کو خوج نے جنگل میں بستی میں
پڑوسی بھی گئے تھے خوج نے بڑیا کو بستی میں
پریشان حال بیٹا دے رہا تھا ماں کو آوازیں
کہا ہو تمہوں میری امنی تمہیں آیا ہوں میں لینے
بہو سے تو خفا ہو تم کیا مجھ سے بھی خفا ہو تمہوں
میں تھا انجان اس سب سے سنو آواز امی تمہوں
میری ماں اے میری جنت بتاؤ کس جگہ ہو تمہوں
تڑپتا ہوں بنا تیرے میری امی کہاں ہو تمہوں
تب ہی آواز بیٹے کی جو ماں کے کانوں میں پہنچی
وہیں ایک پاس کھند ہر سے گھسٹ کر مان کر پہنچی
جو دیکھا ماں کو بیٹے نے گلے اکونے لگایا پھر
نہیں تھی تاؤ بڑیا میں گری چکر وہیں کھا کر
اٹھایا ہاتھ میں بیٹے نے لے آیا اسے گھر میں
حکیموں کو بلا لایا تھا ماں کا تذکرہ کرنے
اٹھایا ہاتھ میں بیٹے نے لے آیا اسے گھر میں
حکیموں کو بلا لایا تھا ماں کا تذکرہ کرنے
کہا ڈاکٹر نے دیکھا تو نہیں اب کچھ بھی باقی ہے
کئی دن سے تمہاری ماں یہ بھوکی اور پیاسی ہے
تب ہی پھر ماں نے کھولی آنکھ دیکھا ایک نظر اس کو
لیچ کی زور کی ایک البدا کہے گئی وہ دنیا کو
لبوں پر دم تھا اٹھا آس تھی بیٹے سے ملنے کی
جو مل لی اپنے بیٹے سے تو دنیا ہی جدا کر لی
بہو روتی دہارے مارتی میت پہ بڑھیا کی
یہ کہتی معاف کر دیتی خطائیں مجھ سے جو ہوئی تھی
میں اب ہر جز زمانے میں کبھی نہ چین پاؤں گی
یہی احساس لے دنیا سے ایک دن میں بھی جاؤں گی
اسے سمجھایا شوہر نے پشمہ ہو جو غلطی پر
خدا بھی معاف کر دیتا ہے توبہ ایسے کرنے پر
ہمیں معلوم ہے اللہ صبر کا عجر دیتا ہے
لبوں پر آئے نہ لیکن خدا انصاف کرتا ہے
سبر مظلوم کا خالی کبھی جاتے نہیں دیکھا
یہی پر سب کو ملتا ہے وہاں ہم نے نہیں دیکھا
سبر مظلوم کا خالی کبھی جاتے نہیں دیکھا
یہی پر سب کو ملتا ہے وہاں ہم نے نہیں دیکھا
ختم امران تیرا واقعہ یہ ہو گیا ہے
ختم امران تیرا واقعہ یہ ہو گیا ہے
ختم امران تیرا واقعہ یہ ہو گیا ہے
سبق قیسا تمھارا یہ سبی کو دے گیا ہے