تم سے سیکھا ہے سارے اصولوں کو
تم سے ہی یہ سیکھا ہے
کیا یہ احساس ہے
لازم ہو جاتا ہے
دل کا یہ عمل
خود کو لٹا دینا اگر وہ خاص ہے
ہاں تم سے ہی تو سیکھا ہے جینا میں نے
تم سے پہلے میں جانتا نہیں تھا خود کو ہی
ہاں اب اگر تم چھوڑ جاتی ہو مجھے
پھر بھی میں تمہارا ساتھ چھوڑوں گا نہیں
تم نے ہی جگایا تھا میرے ارمانوں کو تم نے ہی بدلا مجھے اچھے کے لیے
مگر شاید ضروری اب میں رہا نہیں تمہارے یہ دل کو بہلانے کے لیے
ہاں پھر ٹھیک ہے مجھے چھوڑ تو بھکنا نہیں
ڈھونڈ لو جو مل جائیں پھر سے خوشیاں کہیں
میں تو اک طرف کی دور تھاں بھی اب بھی ہوں
دل میرا تمہاری درہا یوں بدلتا نہیں
تم سے
تم سے
تم سے
تم سے