سبا جو آئی ہے کربلا سے سبا جو آئی ہے کربلا سے
ہزار و صد میں اٹھا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں حسین ابن علیؑ کے غم میں
لہو کے آنسو بہا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
گلے پہ اصغرؑ کے تیر مارا
تڑا کے زینبؑ نے یہ بکارا
ملانا پانی کا ایک پترا
سکینہؑ سب کو بتا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
چلے جو آباس مشکلے کر
کھڑے تھے گھیرے ہوئے ستمگر
ہاں وہ ستمگر
کٹا جو بازو تو رو کے بولے
کی پیاس ہم کو ستا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
جو نوشہ قاسم کی باری آئی
یزیدی لش کرنے کی چڑھائی
یہ رو کے شاپیر نے صدا دی
دلھن تمہاری بلا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
جوانی بیٹی نے سر کٹایا
حسین نے سب کو یہ بتایا
ہاں یہ بتایا
لگی ہے اکبر کے برچی ایسی
قضا بھی سر کو جھکا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
نکالی تلوار میان سے جب مرے ہزاروں ہزاروں بھاگے
یہ کوفی سمجھے کہتے غلی کی
یہاں پہ جوہر دکھا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
یہ حکم آیا لٹا دو گھر کو
بچالو امت کٹالو سر کو
وہ وعدہ بچپن کا پورا کر دو
صدا یہ کانوں میں آ رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
چلایا جس دم گلے پہ خنجر عتیق شمرے لائین بڑھ کر
اے آبدہ کربلا کی ماٹی
فلک کو دیکھو رولا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے
بابا جو آئی ہے کربلا سے ہزاروں صدمیں اٹھا رہی ہے
حسین ابن علیؑ کے غم میں لہو کے آنسو بہا رہی ہے