موم کی آنکھ سے بہتا ہے لہو
پتھروں کی پوروں سے نکلتی ہے جان
کس نے پائی ہے دوزخ
کس کو ملی ہے جنت
انسان کے روپ میں ملتا ہر جا شیطان
زندگی نہیں ہے یہ ہے زندان
زندگی بھی عجیب ہے بنی لمبی داستان
سوچ میں ہوں میں گم شدہ ملے تیرے نا نشان
کاموشی چوبنے لگی ہے تنہائی رو پڑی
کالی ہوں میں اندر سے پرچھائی کھو گئی
زندگی نہیں ہے زندان
زندگی نہیں ہے زندان
زندگی نہیں ہے زندان
زندگی نہیں ہے زندان
زندگی نہیں ہے زندان
زندگی جینے کو نکلی تھی
ہسی وادیوں کی تکلی تھی
میرے ہر پل میں اومنگ تھی
میں بیرنگوں میں رنگ تھی
لگتا مجھے سنگ زمانہ تھا
میں نے جو سوچا اسے پانا تھا
خواہش کی بھول ولیہ میں کھو گئی
کسوں مجھے جانا تھا
ایک سراب کے پیچھے بھاگتی رہی
سوتے سوتے میں جاگتی رہی
زندگی کی لمبی کہانی ہے
میں لفظوں میں اسے نابتی رہی
جھاگتی رہی
تاکتی رہی
کچھ نہ تھا
کچھ بھی نہ تھا
بس سپنا تھا
دیکھے تھے کچھ خواہ
آسمان کو چھونے کے
آزاد ہواں میں کونے کے
دیکھے تھے کچھ خواہ
آسمان کو چھونے کے
آزاد ہواں میں کونے کے
ہواوں میں کون کے
کچھ کھو گیا جو نہ تھا میرا
نہ زمین میری نہ ہے آسمان
پھر ادھر بدر تجھے ڈھونڈتی
اے زندگی تجھے آسرا
ہر سانس ہے پہلی
ہے ہر پہل دھوان
ہوں بھیڑ میں اکیلی
نہ ہے منزل کا نشان
زندگی نہیں ہے زندہ
زندگی نہیں ہے زندہ
زندگی نہیں
ہے زندہ
زندہ
زندگی نہیں
ہے زندہ
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật