عملی مزاحب
میں آپ سے ارز کروں گا ہمارے لفظ بھی ٹھیک ہونے چاہئے
لحجے بھی ٹھیک ہونے چاہئے
وہ جو اشداؤا لالکفار ہے وہ تو کافر منافق گستاک کے لئے
اپنوں کے لئے تو رحماؤ بیناؤ میں
اس کے اندر مزاجوں میں تلخی لے آنا اور تھوڑا سا رویہ بھی
فرق آگیا ہے بڑا سارا
عمید اور غریب کے لئے فرق آگیا ہے
چھوٹے اور بڑے کے لئے فرق آگیا ہے
گاڑی دے کر عزت ہونے لگی ہے
انسان کا مال دے کر اکرام ہونے لگا ہے
کیمرے میں دیکھ لیا جاتا ہے
اندر بیٹھے حضرت دیکھ لیتے ہیں کہ کون کس پجاروں پہ آیا ہے
اس ترطیب سے اس کے لئے اکرام کیا جاتا ہے
ہمیں اپنے لحجوں میں اور بالخصوص بالخصوص اپنے گھروں کے اندر محول
کو اس قدر زیادہ محبت والا بنانا ہے دیکھیں جب میں نے کہا نا کہ لفظ بھی
ٹھیک ہوں بالکل لوگوں کے لفظ بالکل
ٹھیک ہوتے ہیں ان کا لحجہ ٹھیک ہے صبح
نا چھ سات وجہ بہو نے پوچھا تھا سوسر
صاحب سے کہ اب با جی کھانا لاؤ انہیں
کہ بیٹھا میرا بھی دل نہیں ہے
میں نے نہیں کھانا پھر شوگر کے مریض ہوتے ہیں
اکثر بزرگ تو انہوں نے مثال دے رہا ہوں انہوں نے کہا نو دس بجے کے ایک
پتہ روٹی لے آ تو بڑے غصے سے آئی ہے میں دے تو انہوں نے پہلا پوچھا
سکتا ہے اب برطن اس نے بڑے زبردست تلخی کے ساتھ رکھے ہیں دروازہ اس
نے بڑی شدت سے باندھ کیا تو بزرگ آدمی کو تکلیف معزوز ہوئی
یار اس کا
لحجہ ٹھیک نہیں اس نے لفظ ایک بھی نہیں بولا کوئی گالی نہیں دی کچھ
نہیں کہا
لیکن آنا جانا
وہ رویہ ایسا تھا جس سے نہ تحکیر معزوز ہوئی
معزوز ہوا کہ میری تضلیل کی جا رہی ہے
تو شام کو نہ
بیٹے سے شکایت
کر دی والد نے بھوڑے والد نے کہا پتہ تیری بیوی بڑا بسوا کرتی ہے
اسے سمجھا اس نے جب پوچھا تو وہ کہتی ہے اب با جی نے پوچھو میں آکھیا
کیا وہ نے تو کچھ بھی نہیں آکھیا
لفظ تو ایک بھی ادا لیکن اس کا آنا
جانا اتنا خطرناک تھا اس کا بات کرنا ایسا تھا کہ اس نے دل کے کئی
ٹکڑے کر کے رکھ دیئے اس نے کہا میں ابا جی نے پوچھو نہ دس ہو جی
ابا جی میں کیا کہتے ہو نہ کچھ بھی نہیں آکھیا کی دس ہو یہ بتائیں
کہ جب تو آئی تھی تو تیرے تیور کیا تھے قرآن وجید نے سمجھایا
حضرت اللقمان اپنے بیٹے سے کہنے لگے
وَلَا تُسَغِرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ
بیٹا لوگوں سے موں ٹیڑا کر کے بات نہ کرنا
تیرے لفظ نہیں تیرا رویہ بھی ٹھیک ہونا چاہیے
تیرے چہرے پر خوبصورتی بھی ہونی چاہیے
تیرے لہجے کے اندر خوسن بھی ہونا چاہیے
تیرا انداز اپنے انداز کو محبت والا بنایا جائے
اپنے لب و لہجے میں وہ خوبصورتی پیدا کی جائے
کہ لوگ گروی دا پھر کچھ لوگ ایسے ہیں
جو دوسروں کو دیکھ کے اپنا سارا معل خراب کر لیتے
بھئی دوسروں کا اثر لینا تھا یا عمتِ
مسلمہ نے اپنا اثر دوسروں کو دینا تھا
بجائے اس کے کہ ہمارا اس پہ اثر میں سفر کرنا تھا
تو لمبا سفر تھا بڑا تو ایک صاحب
گاڑی کو غلط کراس کر گئے
غلط کراس بھی کر گئے تھوڑی تنقید بھی کر گئے
تو ڈرائیور صاحب کا موڈ خراب ہو گیا
موڈ خراب ہو جائے تو موڈ خراب والے بندے کے ساتھ
سفر کرنا اوہ بندہ آدھے گھنٹے میں تھک جاتا ہے
اس کا موڈ ہی صحیح نہیں ہے اس لیے کچھ لوگوں کو یہ سمجھ لینا
چاہیے کہ موڈ کا ٹھیک ہونا صحت کے ٹھیک ہونے سے بھی زیادہ ضروری ہے
تو موڈ خراب ہو گیا اب وہ گاڑی جو ہے وہ چالتو رہی ہے پر اس کے
اندر جو محول ہے نا وہ ایسے ہے جیسے جون چلائی کی گرمی پڑ رہی ہے
تو میں نے اس بچے سے کہا درہا گاڑی سائیڈ پہ کرو اس نے گاڑی سائیڈ پہ کی
تو میں کہا پتر تو اتھو پانی لے اتھے
پی تے موڈ صحیح کا روتے اتھ نے جو کرنا
سی اتھے کر گیا اتھے اسا اتھے سفر کرنا ہے کہ نہیں
ایک بندے کی ایک تلخبات
کی وجہ سے ہو جاتی ہے اپنے رویے کو
کبھی بھی خراب اپنے رویے میں خوبصورتی
آئیں گے نا بڑے لوگ بڑی عزت عمر بن عبدالعزیز بادشاہ تھے
رات کا
ٹائم تھا ایک رستے سے گزر رہے تھے آدھی رات کے وقت ایک بزرگ فٹ پات پہ
سو رہے تھے سڑک کنارے کے
اس زمانے میں لوگ کھڑاؤں پہنتے تھے لکڑی کے جوتے
حضرت کا پیر آ گیا
تو وہ اچانک ٹکر ہو جائے تو کیا کہتے ہیں سارے لوگ اس
نے بھی وہی کہا اس نے کہا اچانک وہ بزرگ اٹھے سوئے ہو رہے تھے پیر پہ
پیر آیا تکلیف ہوئی تو کہنے لگے آپ اندھے ہیں
تو اس کا جواب یہ تھا کہ چلو
میں اگر اندھا ہوں تو آپ کو عقل نہیں
ہے ماظہر اللہ آپ سڑک پہ سو رہے ہیں
یا رستہ گزر دیں کہ کیوں سو رہے ہیں اس نے کہا پہن دیں
یہ مقام ہے کہ
بندہ محبت والا ہے کہ تلخی والا ہے اب سمجھ آتی ہے روٹین میں تو سارے
پیار کرتے ہیں اب سمجھ آتی ہے اس نے بات کی تو حضرت عمر بن عبدالعزیز
ہس پڑے
یہاں ہسنا کمال ہے
جتن جتن تے ہر کوئی کھیڑے کدھے ہارن
بھی کھیڑ فکیرہ
جتن دا ملکوڑی پہن تے ہارن دا ملہیرہ
حضرت عنصر
بن مالک کی عدیث سعی بخاری میں موجود ہے فرماتے حضور نے سرخ دھاری
دار چادر یہاں رکھی ہوئی تھی
حضور گزر رہے تھے ایک شخص نے پکڑ کے
چدر کو کھینچا قریم محبوب کی مقدس گردن پر نشان پڑ گیا
جب حضور
نے پلٹ کے دیکھا تو کہنے لگا جی میں کوئی بھیگ لینے آیا تھا کوئی
شتا کر دے حضرت عنصر کہتے ہیں لوگو میں قربان جاؤں جب حضور نے بات سنی
تو نبی قریم نے مسکرانا شروع کر دیا
یہاں مسکرانا کو زور سے دروازے پہ
دستک دے دے تو اس فقیر کو خیرات کوئی نہیں ملتی
اس نے نشان ڈال دیا پر
قریم مسکرانے ہیں یہ انداز ہے انداز محبت نبی قریم مسکرانے ہیں
اور فرمایے دو پاڑیوں کے بیچ جتنی بکڑی کھڑی ہیں ساری اسے دے دو
دے دو
ساری اسے دے دو یہ انداز ہے کہ آپ اگر پیار والے ہیں تو پھر آپ صرف
اپنوں کے لیے پیار والے ہیں
جو ہاتھ بانگ کے پیچھے چلتے ہیں فقط ان کے
لیے پیار والے ہیں جنہوں نے پوری فرما برداری کا اعلان کر دیا فقط
ان کے لیے پیار والے ہیں سنیے کا اور یاد رکھیے کہ حضرت عمر بن
عبدالعزیز رحمت اللہ باقی میری بات بھی مکمل ہو گئی اس میٹ نے لگا
ہو
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ سے اس نے کہا پندے ہاس پڑے
اور حضرت کے کندے پر تھبکی دے کے کہنے لگے نہیں بابا جی مجھے نظر آتا ہے
یہ کچھ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے فرما بردار ہوتے
بلکہ اور مثال دوں تو یہ جو
کیتلی ہوتی ہے نا یہ چائے سے زیادہ گرم ہوتی ہے ہمیشہ
وہ جو ساتھ تھے نا دو تین
سپائی انہوں نے نا تلواریں نکال دی
آپ فرمانے لگے تمہیں کیا ہوا کہنے لے گستاخ
ہوا ہم رشتہ ہے اسے قتل کریں گے کہے گستاخ کی کی اس نے
اسے سزا دیں
گے مارے ہیں کہا ہوا ہے
جناب اس نے آپ کو اندا کہا ہے آپ فرمانے لگے
نہیں اس نے تو نہیں کہا
کہ جناب کہا ہے فرمائے نہیں کہا جناب کہا
ہے عبادتوں سے بات کر رہا تھا مجھ سے کر رہا تھا تو اظہر آپ سے
بات کر رہا تھا تو فرمانے لگے بابا جی نے تو ایک سوال پوچھا ہے کہ
مختصر سی بات ہے
تو مختصر سی بات ہے
بھی آپ اندے تو نہیں
تو اس کا جواب ہے
نہیں مجھے نظر آتا ہے
تھوڑا سا نہ
لہجوں میں اٹھنے بیٹھنے میں
اپنے شب و روز میں
اپنے انداز میں
تھوڑے سے مزاج میں محبت ہو
تھوڑا طبیعتِ نرم ہو
تھوڑا جو قلب ہے جو دل ہے
اس کے اندر کسی کے لیے گنجائش ہو
کیا کہتے ہیں ہمارے بزرگ
ہمارے بزرگ کہتے ہیں
مکان ہی بڑے نہ بناو دل بھی بڑے کرو
ہمارے بزرگ کہتے ہیں میرے زمینے ہی نہ وسیع کرو
تھوڑا سا ذرف بھی بڑا کرو
کیا کہتے ہیں چودہ طبق
میرے دلے دے اندر
تے میں تمبو وانگوں تانے ہوں
دل دریاں سمندروں ڈونگے
دل دریاں
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật