وہ مدینہ جو کونین کا تاج ہے
جس کا دیدار مومن کی میراج ہے
وہی گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہر محبت جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے
کہ کچھ
گھر بھی چھوڑا
تو سیدھی کے آنکھ بر کے گھوٹوں پہ آیا
جو پوچھا نبی نے
کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو سیدھی کے آنکھ بر کے گھوٹوں پہ آیا
وہاں مالو دولہ
کی کیا ہے حقیقت
جہاں جان لٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہر محبت جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر وہ چاندی سی مٹی
وہ سونے سے کنکر وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
جہادِ مغابت کی آواز گونجی
کہاں غرصہؑ لانے
یہ دلہر سے اپنے
اجازت اگر تو
تو جامع شہادت
لبوں سے لگانے
کو جی چاہتا ہے
وہ شہر محبت جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے
جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے
وہسوں کا سکانکل
وہ سونے سے کنکر وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
حسین بن حیدر کا تھا ایک نعرا
حسین بن حیدر کا تھا ایک نعرا
مجھے کو جچاہتا ہے
اپنے نانا کا حیدین پیارا
مجھے تاج سیور کی خواہش نہیں ہے
میرا خلد جانے کو جی چاہتا ہے
او شرر مغابر جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سکن کر وہ چاندی سمارتی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
وہ ننھے سے اکسگر کوئی ڈی رگڑ کر
یہی کہ رہے ہیں وہ خیمے میں رو کر
اے بابا میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں
میرا سر کٹانے
جانے کو جی چاہتا ہے
او شرر مغابر جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سکن کر وہ چاندی سمارتی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سکن کر وہ چاندی سمارتی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند
کہتا ہے غردوں
تمہیں کیا بتاؤں
وہ ٹکڑوں کا آلوں
اشارے میں آقا
کہ اتنا مزا تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہر مغابر جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سکم کرنے وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روح جمال رسالہ
تو تاغر عمر مصطفیٰ
سے بولے بڑی آپ سے دوش منی تھی
مگر اب غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے
وہ شہر مغابر جہاں مصطفیٰ ہے
وہی گھر بنانے
کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سکم کرنے وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
کو جی چاہتا ہے
وہی گھر بنانے کو جی چاہتا ہے