سامائی نہزرات
شبنم میوزک اینڈی جے جنیجا جی پیش کرنے جا رہے ہیں
ایک بہت ہی درد بھرا واقعہ
جس کا عنوان ہے
پیاسی ماں اور بے دردی بیٹا
دیکھئے حضرات میں یہ ماں بیٹے کا
بہت ہی درد بھرا واقعہ آپ کو سنانے جا رہا ہوں
ایک بیٹا اپنی بیوی کے کہنے میں آ کر
کس طرح سے اپنی پیاسی ماں کو دھکا دے دیتا ہے
اور وہ پیاسی مر جاتی ہے اور آگے کیا ہوتا ہے
میں اس واقعے میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں
اس کے فنکار ہیں شکیل اشفا قبوال اور اینا بدایوں
اس واقعے کو لکھا ہے ہندوستان کے مشہور شاعر جناب
فہیم شاد پائنٹی کلا امروہا
میزوک سے سجایا ہے راجو خان صاحب نے
اس کی ریکارڈنگ کی ہے
مسٹر چندر گاندی جی نے ایس کلیانی اسٹوڈیو دریا گنگ نئی دلی
سنو غور سے کیا ہے ماں کی حقیقت
بیان شاد کرتا ہوں سچی ہکایت
سنو غور سے کیا ہے ماں کی حقیقت
ملک شام میں ایک رہتی تھی بیوا
مسیبت میں دکھ درب سہتی تھی بیوا
فقط ایک بیٹا تھا ہمراز اس کا
اٹھاتی تھی خوش ہو کے ہر ناز اس کا
امیروں کے گھر جھاڑو پوچھا وہ کرتی
محبت سے پوری خلص اس کی کرتی
کبھی اپنے بیٹے کا دل نہ دکھاتی
ہمیشہ محبت وہ اس پہ لٹاتی
سکاتی تھی دینیں اسلام اس کو خدا کی رضا کا
ہر ایک کام اس کو نصیحت کی باتیں جو ماں نے سکھائیں
تو بیٹے میں کوئی برائی نہ آئی
نصیحت کی باتیں جو ماں نے سکھائیں تو بیٹے میں کوئی برائی نہ آئی
سمجھتا تھا وہ ماں کو بس اپنی دولت
اسے دیکھ کے ماؤں کو ملتی تھی راحت
اسے دیکھ کے مآں کو ملتی تھی راحت
اسے دیکھ کے ماؤں کو ملتی تھی راحت
عربی سُبیب طائف
مزید شکار
ویڈیو
اسٹرئیشن
سار وہ تو ہytt
دس برس کا جو بیوا کا بیٹا
تو بچپن میں اس کا یہ ایمان دیکھا
خدا کی عبادت صبح شام کرتا
برا نہ کبھی وہ کوئی کام کرتا
وہ روزے بھی رمضان کے رکھتا
کئی سال بچپن میں ایسے گزارے
جوانی میں پھر جو قدم اس نے رکھا
برائی کا دل میں بھرم اس نے رکھا
فقط یارو بازی میں وہ پڑ گیا تھا
کئی بار ماں سے بھی وہ لڑ گیا تھا
اسے بوڑھی ماں کی بھی پروا نہیں تھی
کرو ماں کی خدمت اسے چاہ نہیں تھی
برے کام کرنا ہوئی اس کی فطرت
بھلا بیٹھا دل سے وہ ماں کی نصیحت
وہ سنگ رہتا شامو سہر دوستوں کے
اسے اچھے لگتے تھے گھر دوستوں کے
کمائی وہ ماں کی نشے میں اڑاتا
نہ انکار ناموں سے وہ باز آتا
پریشان ہوئی جب بڑی اس کی الژھن
تو بیوا سے آ کر یہ بولی پڑو سن میری بہن میرا
کہا مان جاؤ تم اپنے پسر کی دلھن گھر میں لاؤ
مجھے ہے یقین پھر سدھر جائے گا وہ
تمہاری قدر بھی سمجھ جائے گا وہ
اسے ذمہ داری کا احساس ہوگا یقینا تمہارا اسے پاس ہوگا
سنی جب پڑو سن سے باتیں یہ ساری کہا ٹھیک لگتی ہیں باتیں تمہاری
مجھے تم نے بہنا یہ اچھی سلا دی
کروں گی میں اب جلد بیٹے کی شادی
بہت جلد رشتہ بھی ڈھونڈا شہر میں
پھر ایک روز جا پہنچی لڑکی کے گھر میں
پھر ایک روز جا پہنچی لڑکی کے گھر میں
پھر ایک روز جا پہنچی
لڑکی کے گھر میں
وہ لڑکی کے ماں باپ اسے پھر یہ بولی بڑی آجزی سے زبان اس نے کھولی
سنا ہے تمہاری جوا ایک لڑکی بہت خوبصورت ہے وہ نیک لڑکی یقین جانیے آپ
ہر چند میرا بہت خوبصورت ہے فرزند میرا میرا مشورہ ہے
نکائی نکا کر دو یہ دامن میرا تم امیدوں سے بھر دو
تو لڑکی کے ماں باپوں نے ہو کے راضی بولا کر کے بیوا کو لڑکی دکھا دی
بہت خوش ہوئی اور گھر اپنے آئی
یہ بات اس نے اپنے پیسر کو بتائی
رضا مندی بیٹے نے اس کے دکھائی
ہوئی شادی اس کی دلھن گھر میں آئی
دلھن رات دن کرتی بیوا کی خدمت
دلھن رات دن کرتی
بیوا کی خدمت
نہ پوچھو کہ دل کو ملی کتنی راحت
نہ پوچھو کہ دل کو ملی کتنی راحت
پیسر نے برائی کا ہر کام چھوڑا
کے آروں سے ملنا صبح شام چھوڑا
وہ بیوی کا اتنا
ہوا تھا دیوانا
نہ رکھتا تھا پھر وہ
کہیں آنا جانا
دلھن ساس کے ناز ہس کے اتھاتی
کبھی کوئی شکوا زبان پر نہ لاتی
مگر بیٹا ایسے ہوا دور ماں سے
نہیں پوچھتا حال مجبور ماں سے
غرض ایک دن بولی بیوا دلھن سے میری جان جاتی ہے اس فکر و فن سے
خیال اس کا مجھ سے جدا کس لیے ہے میرا لال مجھ سے خفا کس لیے ہے
جسے میں نے پالا مسیبت اٹھا کر نہیں بیٹھتا وہ میرے پاس آ کر
تو دلھن یہ بولی
گھبراؤ نہ تم
ملال اپنے دل پہ یہ اب لاؤ نہ تم
ملال اپنے دل پہ یہ اب لاؤ نہ تم
جو
کہتی ہو تم میں یہ ان سے کہوں گی بھروسہ کرو اب میں چپ نہ رہوں گی
گھر میں آیا جو
بیوا کا بیٹا
تو مایوس بیوی کو جب اس نے دیکھا
وہ بیوی سے بولا
تجھے کیا ہوا ہے جو چہرا تیرا آج اترا ہوا ہے
تو بیوی یہ بولی
تمہیں کیا بتاؤں میں دل کے زخم کیسے تم
کو دکھاؤں مجھے ماں تمہاری ستاتی بہت ہے
وہ
دیتی ہے تانے رولاتی بہت ہے
وہ کہتی ہے میں نے کیا تم پہ قبوضہ
میرا بیٹا مجھ کو
نہیں ہے سمجھتا
یہ سنتے ہی بس تیش میں آ گیا وہ
تو فورا ہی بس پاس آ کے گیا وہ
وہ سوئی ہوئی تھی
اسے جا اٹھایا
زمیں پر گری ایسا دھکا لگایا
کہا میری
بیوی سے جلتی بہت ہو کہ تم آدموں سے اگلتی بہت ہو
اسے تانے دے کے
رولایا ہے تم نے
میرے دل پہ نشتر چلایا ہے تم نے
کہا لادلے جھوٹ وہ بولتی ہے
تیری بیوی کیسا زہر گھولتی ہے
مگر ماں پہ اپنی اسے کب یقین تھا
سوار اس کے سر پہ وہ شیطان تھا
جو بیٹے نے اس کو گریا تھا گھر میں
لگی چوٹ اس وقت بیوی کے سر میں
ہوا چوٹ کا جب کہ احساس اس کو
تڑپنے لگی جب لگی پیاس اس کو
تو بیوا نے بیٹے سے مانگا جو پانی نہیں پیاسی ماں کی قدر اس نے جانی
یوں ہی بھوکی پیاسی تڑپتی رہی وہ
جو تھی پیاس اس کی
بھڑکتی رہی وہ
جو تھی پیاس اس کی بھڑکتی رہی وہ
جو تھی پیاس اس کی بھڑکتی رہی وہ
پھر یہ شوہر سے بیوی نے
آکے خبر موت کی دو
محلے میں جاکے تو بیوی کی باتوں کی اس نے قدر کی
محلے میں جاکے یہ سب کو خبر کی پڑوسی بھی اس کے
چلے آئے فوراں قفن جاکے کچھ لوگ لے آئے
فوراں محلے کی کچھ عورتوں نے نہلا کر
قفن آیا بیواں کو
خوشبو لگا کر اٹھا ساس کا جب اگے گھر سے جنازہ
تو افسوس دلہن کو نہ تھا ذرا سا غرز جب دفن ہو گئی ماں کی میت
پسر کی اچانک بگڑتی ہے حالت
گرا اس پہ لکبا اپاہج ہوا وہ
تو پھر چلنے پھرنے سے آجز ہوا وہ
دلہن اس کی کرتی تھی دن رات خدمت
مگر ایک پل بھی نہ ملتی تھی راحت
مگر ایک پل بھی نہ ملتی تھی راحت
بہت سر جنوں کی دوائی کھیلائی
شفا اس مرض سے اسے مل نہ پائی
دکھایا تھا دل اس نے جو اپنی ماں کا
تو برسا تھا اس پہ خیر یہ خدا کا بیماری سے اس کی
تھی حیران بیوی
تو بولی یہ ہو کہ
پریشان بیوی
یہ ممکن نہیں ہے شفا ہو تمہاری
بڑھاتے ہو پھر کیوں میری بے قراری یہ کہہ کر گئی چھوڑ کر اس کو بیوی
رولانے لگی پھر اسے بدنصیبی وہ بستر پہ اپنے پڑا رو رہا تھا
لگی آنکھ گفلت میں وہ سو رہا تھا تو پھر
خواب میں اس نے دیکھا یہ منظر
یہ کہنے لگی ماں قریب اس کے آ کر
میرے لالے تجھ کو
یہ کیا ہو گیا ہے
تیرے ساتھ کیا ہاتھ سا ہو گیا ہے
تیرا حال یہ مجھ سے دیکھا نہ جائے تیری بے بسی دل پہ نشتر چلائے
شفا ہو تجھے التجا میں کروں گی تیرے حق میں رب سے دعا میں کروں گی
خدا تور کر دے گا تیری مصیبت تیری بے قراری کو بخشے گا راحت
دعا کی تھی ماں در نے اے رب بی باری مٹا دے میرے لال کی بے قراری
منظور یا رب میرے لال کا کر دے دکھ دور یا رب
دعا ماں کی مقبول پھر ہو گئی جب اٹھا نیند
سے وہ سہر ہو گئی جب شفا مل گئی اس کو
ماں کی دعا سے کیا شکر مولا کا اس نے زبان سے
کرو گے اگر شاید تم اس کی خدمت
کرو گے اگر شاید تم اس کی خدمت
ملے گی تمہیں ماں کے قدموں میں جنت
ملے گی تمہیں ماں کے
قدموں میں جنت
ملے گی تمہیں ماں کے قدموں میں جنت