Lời đăng bởi: 86_15635588878_1671185229650
معزز خواتین و حضرات
شبلم میوزک اور انڈی جے جنیجا جی
ایک بہت ہی حسین واقعہ پیش کر رہے ہیں
جس کا عنوان ہے
صحابی حضرتِ ابو طلحہ انساری کا
سرکار دو عالم سے عشق
جس کے لکھنے والے شاعر ہیں
جناب
عبدالقیوم تاج رچھولہ سبل
اور آواز تاہر چشتی شیرگل بریلی
اور میوزک کو انجام دیا ہے جناب راجو خان جی نے
اور ریکارڈنگ کی ہے چندر گاندی ایس کلیانی سٹوڈیو
دریا گنگ دہلی لیجے سمات فرمائیے
یہ صحابی حضرتِ ابو طلحہ انساری کا واقعہ
تاج سنیے یہ عبرت بھرا واقعہ
ہے ابو طلحہ انساری کا واقعہ
تاج سنیے یہ عبرت بھرا واقعہ
ہے ابو طلحہ انساری کا واقعہ
سچ تو یہ ہے کہ ان کی بڑی شان ہے
جان ساری پہ ہر کوئی قربان ہے
دل میں ان کے بسا تھا یوں عشتِ نبی
جان دینے سے ڈرتے نہیں تھے کبھی
رب نے بخشا تھا اونچا انہیں مرتبہ
پیار کرتے تھے ان سے حبیبِ خدا
جانے جاتے تھے وہ ساد دی کے لیے
جینا مرنا تھا ان کا نبی کے لیے
دین پر آنچ آئے گوارا نہ تھا
کوئی بھی ظلم اڑھائے گوارا نہ تھا
کرتے تھے سنتِ مصطفیٰ پر عمل
راہِ حق پہ ہی چلتے تھے ہر ایک پل
ہر گھڑی دل میں رہتا تھا خوفِ خدا
پرچمِ حق وہ لہراتے تھے جا بجا
در حقیقت وہ تھے اسی قدر باوفا
سہ نہیں پاتے تھے فرقتِ مصطفیٰ
جب وہ جنگے وہ حد مومنوں چھلے گئی
عالمِ افرا تفریہ تھا وہ اس گھڑی
دل میں ہر ایک کے تھا ایک خوف و حراس
وہ پہاڑِ اوہد تھا مدینے کے پاس
حق و باطل کا تھا ایک عجب مارکہ
دامنِ اوہد میں جو کہ واقع ہوا
تذکرہ اس کا قرآن کے پاروں میں ہے
کیفیت جس کی اب بھی نظاروں میں ہے
اصل میں بدر کے مارے کفار تھے
دشمنِ دین وہ سارے غدار تھے
جو بھی مارے گئے تھے وہ سردار تھے
در حقیقت وہ سب ہی اثردار تھے
سارے کفارِ مکہ میں تھی کھل بلی ابتدا جنگی کی اس لیے ہو گئی
گھر تھا ہر ایک کا یارو ماتم کدا ایک قیامت سیتھی ہر طرف ہی بپا
بدلہ لینے کو بے چین تھا ہر کوئی
بڑھتی جاکی تھی ہر ایک کی بے کلی
چہرہ مقتولوں کا رہتا تھا بھو بھرو
مسلموں کو مٹانے کی تھی عارضو
ڈر تھا یہ زدی ہیں عاشقِ مصطفیٰ
آخر عشق اس طرح سے کریں سامنا
خون کی پیاسی تھی وہ کافرہ عورتیں
جنگ کرنے پہ اکساتی تھی وہ انہیں
الغرض بے پناہ جوش دل میں لیے
جنگ کرنے مسلمانوں سے آ گئے
تھے نبی ان کے منصوبوں سے با خبر بولے اہلِ مدینہ سے یہ راہ بر
دامنِ اوہد میں ہوگا یہ فیصلہ
دشمنوں کا ہمیں حشر کرنا ہے کیا
وہ اُدھر سے چلے یہ اِدھر سے گئے تھے بلندی پہ دونوں کے ہی حوصلے
عورتیں ان کی سب دفعہ بجھانے لگیں
حوصلہ ہر کسی کا بڑھانے لگیں
تھے وہ سب کے ہی سب طالبِ انتقام
آگے بڑھنے لگے اللہ والے تمام
جذبہِ کا مرانی وہ دل میں لیے
مسلموں پر سبھی حملہ آور ہوئے
تھے بلندی پہ اس طرح سے حوصلے
وار پہ وار اک ساتھ کرنے لگے
ہو گئے کتنے ظالم جہنم رسید
ہم نے اس سنت سے بھی ہوئے تھے شدید
پا گئے تھے شہاقت صحابہ گئی
تھی ہر ایک سنت ہی ایک عجب خلبلی
تھا گھم آسان یہ اس قدر مار کا
ہو گئے تھے شہید ہم زوہنزلا
تھا ہر ایک شخص کا حوصلہ آج پر
جان دینے کو تیار تھا ہر بشر
ہر طرف ایک عجب شور غل مچ گیا
حملہ اتنے میں آقا پہ ایک نے کیا
وار تھا اسی لئی کا وہ اتنا شدید
ہو گئے تھے نبی کے دو دندا شہید
حال یہ دیکھ کے سب ہی تھر آ گئے
دوڑ کر سب صحابہ قری آ گئے
پھس گئے تھے وہ نرغے میں خیر الورا
حال تلہا سے ہر گزی نہ دیکھا گیا
ہاتھ اپنا وہ فورا ہی آگے کیا
ان کے ہر وار کو ہاتھ پر لے لیا
وار ایسے ہوئے ہاتھ شل ہو گیا
جسم زخموں سے لمحے میں چھلنی ہوا
کچھ نہ پرواں ہوئی ان کو اس بات کی
مصطفیٰ ہے سلامت تھی ان کو خوشی
اپنی چوٹوں کا ہر گزی کیا نہ خیال
بارہا پوچھتے تھے نبی سے وہ حال
دشمن دین حیران تھے یہ دیکھ کر
کہ وفادار ہے تلہا یہ کس قدر
تیر برسا رہے تھے وہ ایسے میں بھی
دیکھ کر حال حیران تھا ہر کوئی
ڈھال بن کر کھڑے تھے وہ تلہا سنو
وار سینے پہ دشمن کا سہتے تھے وہ
کہتے تھے جان چاہے یہ جائے چلی
آپ پر آج آنے نہ پائے نبی
میرے ماں باپ قربان ہے آپ پر
یاشہ امبیاء شاہ جنوں بشل
آخری سانس تک کم نہ ہو حوصلہ
حال ہو جائے کیسا بھی چاہے میرا
دل سے کرتا رہوں گا میں خدمت صدا فکر انجام کی ہے نہ مجھ کو ذرا
آپ کے سامنے نکلے تم جو میرا
اس سے بڑھ کر میرے حق میں ہے اور کیا
پھر کمر پر بٹھا کر کے سرکار کو
پہنچے کوہے کوہد پہ وہ اے مومنوں
دشمنوں نے بہت کوششیں کی مگر
وار ان کے نہ ہونے دیئے بااصل
زور دشمن کا ہر گز بھی چلتا نہ تھا
یہ مجاہد کسی سے بھی ڈرتا نہ تھا
جوش پر تھا وہ اس طرح سے حوصلہ
کاٹی دیتے تھے دشمن کا پل میں گلا
بولے آقا تو طلحا وفادار ہے واقعی عالی اے پیارے کردار ہے
زخم پر زخم کھائے ہیں میرے لیے
دکھ اٹھائے بہت رنجو غم بھی سہے
پر مجھے کوئی تکلیف ہونے نہ دی
اور جنت بھی اے طلحا واجب ہوئی
عشق احمد میں دل سے
جو قربان ہے
تاج اوچھی اسی شخص کی شان ہے