جو پریشان ہے
بیٹی سقینا
پریشان ہے بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا
بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا
کیوں پریشان ہے بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا
آئیے پہلا بند نظر کرتا ہوں
سمات کریں
پیاس کی شدت سے چہرا
پھول سمور جھا گیا
پھول سمور جھا گیا
یہ حال زینبؑ کا بھی دل رونے لگا
یوں سقینا کو پیتھا کر پنتے زہرا نے کہا
جانتی ہوں تین دن سے خوشک ہے تیرا گلا
تیرے بابا بھی نہیں اباس اکبر بھی نہیں
کاسمون محمد نن اسغرؑ بھی نہیں
جب چچا اباس نے بریا سے مسکیزہ بھارا
لشکر کفار نے پیروں سے چھلی کر دیا
رہ گئے اہلِ حرم اور عابد بیمار ہیں
کیا وہ پانی لائیں گے اٹھنے سے بھی لاچار ہے
کون ہے میں کس کو بھیجوں پانی لانے کے لیے
تو کہے تو خود میں جاؤں سر کٹانے کے لیے
کیوں پریشان ہے بیٹی سقینا
کیوں پریشان ہے بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا ملے گا رب نے چاہا تو پانی ملے گا بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا
بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا
کون ہے میں کس کو بھیجوں پانی لانے کے لیے
تو
کہے تو خود میں جاؤں سر کٹانے کے لیے
آئیے دوسرا بن پیش کرتا ہوں
سبر کر بیٹی سقینا سبر ہی کام آئے گا
دیکھنا ہر ظلم کا سر ایک دن جھک جائے گا
امتحان کی یہ گھڑی بابا پی تیر آئی ہے
سبر کا دامن جو چھوڑا تو بہت رسوائی ہے
مشکل جتنی پڑے ہس کر اٹھانا ہے تمہیں
مرضی مولا کی آگے سر دھکانا ہے تمہیں
مالک مختار ہے خالق ہے وہ رب جلیل وہ مسیبت سے نکلنے کی نکالے گا سبیل
جب مدد وہ خالق مطلق تیری فرمائے گا
سل کر تیرے قدموں تل آ جائے گا
کیوں پریشان ہے بیٹی سقینا
پریشان ہے بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا
ملے گا رب نے چاہا تو پانی ملے گا
ملے گا رب نے چاہا تو پانی ملے گا
ملے گا رب نے چاہا تو پانی ملے گا
جب مدد وہ خالق مطلق تیری فرمائے گا
پانی کچھ چل کر تیرے قدموں تلے آ جائے گا
کیوں پریشان ہے بیٹی سقینا
رب نے چاہا تو پانی ملے گا
آئیے تیسرا بنت پیش کر رہا ہوں
اور
مارکہ کربلا کے جو سب سے پہلے شہید تھے حضرتِ حُر
آپ ملائزہ رکھیں اور یہ بنت سنئے گا توجھو
اب ذرا دل تھام کر بیٹھو سنو یہ ماں جھرا
کس طرح امدات مظلوموں کی کرتا ہے خدا
ہائے وہ شامِ غریبہ اور وہ زینب کا غم
لٹ چکے تھے سارے خیمے جل چکے تھے سب حرم
ریت پر بیٹھی ہوئی تھی دختر مشکل کشاں
خاک پر بستر لگا تھا عابد بیمار کا
بیاس سے بے حد پریشان دختر شبیر تھی
ایک طرف سکتے میں بیٹھی بانوِ دل غیر تھی
سامنے جھولا جلا تھا اصغر معصوم کا خون میں کرتا رنگا تھا اکبر مظلوم کا
گربلا کا افو یہ منظر کتنا بہشت ناغ تھا
ہر طرف چھایا ہوا تھا بس اندھیرہ موت کا
اتنے میں زینب نے آتی روشنی دیکھی قریب
وہ لگی یہ سوچنے یہ دوست ہے یا کہ رقیب
رفتہ رفتہ روشنی خیمے کے اندر آگئی
پھر کسی خاتونز نے زینب کو یہ آواز دی
پہلے بی بی اے سلام اے آجزا نہ لی جئے
اندر آنے کی اجازت پھر مجھے دے دی جئے
بنتِ زہرا نے کہا تم کون ہو کیا چاہیے
میں پریشان حال ہوں کیوں آئے ہو بتلائیے
تم ہمارا حال بی بی پوچھنے کو آئی ہو
یا لوٹے گھر کا تماشا دیکھنے کو آئی ہو
رو کے وہ خاتون بولی سنیے بنتِ مرتضی
جوزِ حر کو بھی قدموں میں جگہ دو سیدہ
نرگے قفار سے بچاتی آئی ہوں جوک روٹی اور پانی ساتھ رب نے لائی ہوں
بی بی اسنا چیز کی خدمت یہ کر لیجے
قبول آپ بنتِ فاطمہ ہیں آپ ہیں آلِ رسول
آپ کے در سے سوالی کوئی نہ خالی گیا جس
نے آ کے جو بھی مانگا اسے بھی زیادہ ملا
آپ کی پا کر غلامی قیمتی ہو جاؤں گی
میں جہنم سے نکل کر جنتی ہو جاؤں گی
سن کے ساری باتیں بنتِ مرتضی رونے لگی
سوزِ حر کو بٹھا کر پاس یوں کہنے لگی
میں تمہارا دل نہ توڑوں گی جو پانی لائی ہو
ہے سکینہ جاں بھلہ پہلے تم اس کو پانی دو
یہ میری بالی سکینہ ہو گئی جو اب یتیم
عزر اس خدمت کا دے گا تم کو وہ رب کریم
پھر یہ زینب نے کہا بیٹی اتھو پانی پیو
پیاس سے تم ہو پریشان پہلے تم پانی پیو
اور پھر تم وار سے دے کوئی شانے کی بریہ
کس طرح ظاہر مدد پیاسوں کی کرتا ہے خدا
ہا تو اپنے دعا کو اٹھا لے
تیری خدور اللہ کرے گا
جو اللہ کرے گا
ہا تو اپنے دعا کو اٹھا لے
ہا تو اپنے دعا کو اٹھا لے
ہا تو اپنے دعا کو اٹھا لے
تیری دکھ دور اللہ کرے گا
کرے گا تیری دکھ دور مولا کرے گا
اللہ کرے گا تیری دکھ دور مولا کرے گا