معزز سامین حضرات
میں حاجی تصمیم عارف
واقعہ حضرت صوالے علیہ السلام اور ان کی اونٹنی کا لے کر حاضر آیا ہوں
یہ کلام لکھا ہے جناکاری انوال عالم ادھے پوری بجنور نے
میوزک سے سوارا ہے جناب بھرت کمار پریہار جی نے
یہ ریکارڈنگ اس کلیانی اسٹوڈیو دریا
گنج نئی دلی جناب کپل گاندی جی کی ہے
اور یہ پیشکش ہے محبت ریکارڈس سمیر اباسی اور سمیر خان کی
سامین اللہ کے ایک اور نبی حضرت صوالے علیہ السلام کا بہت دلتست واقعہ
اور ان کی اونٹنی کا یہ واقعہ آج پیش کر رہا ہوں
اس واقعہ کو آپ توجہ کے ساتھ سمات پرمائیں گے
تو انشاءاللہ اس کے اندر جو تفصیل ہے اس واقعے کی
وہ پوری آپ کو پتا چلے گی
آئیے میں واقعہ سنا رہا ہوں باقی آپ سنتے جائیے
اور اس واقعے کا لجھ اٹھاتے جائیے
جنگلیویسی ایمانینی
سنو یہ داستہ صوالے نبی اور اونٹنی کی ہے
کلام اللہ کے پاروں میں بھی انوار لکھی ہے
سنو یہ داستہ صوالے نبی اور اونٹنی کی ہے
روا تھا حود پیغمبر کا جس دن گوھر دنیا میں
جو تھا ایمان والا تھا بہت مسرور دنیا میں
انہی کے طور میں شدہ بن جنت بنائی تھی
مگر جانے نہ پایا خلق میں اور موت آئی تھی
بخیر او آفیت گزرا جو دور حود پیغمبر
تو پھر گھٹتا گیا دنیا میں زور
حود پیغمبر
بنی قوم شموع اک دم بکوں کو پوجنے والی
لگی پوجا پرستش میں نہیں تھی سوچنے والی
خدا نے حضرت صوالے کو پھر اس قوم پر بھیجا
ہدایت کے لیے اس قوم کی رب نے ادھر بھیجا
کرو تم بندگی اللہ کی صوالے نے فرمایا
نہیں صاحب تمہارا ماں سواللہ کے فرمایا
وہی مابود پر حق ہے شریک اس کا نہیں کوئی
نرالی شان والا ہے
وہ اس جیسا نہیں کوئی
اس قوم کو پوجنا تم چھوڑ گو اس میں بھلائی ہے
عبادت ہے اسی کو جس نے یہ دنیا بنائی ہے
کہا یہ منکروں نے گر پیغمبر ھو
دلیلیں دو
نبی ہم مان لے تسکین ھو دل ھو دلیلیں دو
تو بولے حضرت صوالے کے قوم حود کو دیکھو
سبب اس بت پرستی کے فلا رب نے کیا ان کو
میں حضرت حود کے پیچھے خلیفہ ہوں یہ تم مانو
کہا یہ منکروں نے موجزہ کچھ ہم کو دکھلا دو
جو تم چاہو کہا سوالے نے مو کھولو دکھاؤں گا
میں اللہ کی عطا سے جو بھی پوچھو گے بتاؤں گا
سبھی کہنے لگے ہے عارض ہوں اتنی پیغمبر سے
نکل آئے ابھی اتنی اس موٹ پتھر سے
جنے بچہ ابھی اور دودھ دے ایمان لائیں گے
نبی ہیں آپ اللہ فاق کے ہم مان جائیں گے
تبھی جبریل آئے اور کہا اقرار لو ان سے
نہ ماریں اوٹنی کو بے اجازت یہ کہو ان سے
سوائے
دودھ کے کچھ بھی حلال ان پر نہیں سکا
بتا تو پال بھی بی کا نہ ہو جائے کہیں اس کا
لیا اقرار ان سے حضرت سوال پیغمبر نے
لگائی لو اشارہ دے دیا یہ رب اکبر نے
کہا مولا نے دروازہ کھلا ہے تم پہ رحمت کا
دعا مانگو تماشا دیکھ لو پھر میری قدرت کا
ہزاروں سال سے ایک
اوٹنی پتھر کے
اندر ہے
اسے ہم نے بنایا او برو
اچھی ہے بہتر ہے
دعا مانگی کہا آمین سارے مومنوں نے جب
ہلا وتھر ہوئی آواز
دیکھا منکروں نے جب
نظر رکھی سبی نے اس لیے ان کو ضرورت کی
نکل آئی تبھی ایک اوٹنی جو خوبصورت کی
زمانے میں نہ ایسی اوٹنی رب نے اتاری تھی
جو مالک حسن کی تھی اوٹنی ان سب پہ بھاری تھی
کرو تازہ کی موٹی تازی فروہ جسم تھا اس کا
تھا جو حاضر وہاں چہرا ہر ایک تک تا رہا اس کا
ہوئی بس ایک ساعت اوٹنی نے دے دیا بچا
بنا چشمہ چرا گا بھی بنی چرنی لگا بچا
قبیل ساتھ تھے سارے قبیل حس لیتے تھے
کنواں تھا ایک پانی لے کے اس سے روز پیتے تھے
نہ گھٹتا تھا کبھی پانی برابر جوش کھاتا تھا
ہوا کرتے تھے سب سہراب ہر دن ایسا چشمہ تھا
گئی پھر اوٹنی پانی وہ سارا پی لیا اس نے
نہ پینے کے لیے اس قوم کو پانی دیا اس نے
خاس والے نے دو کر دودھ تم اس کا پیا کرنا
شکم سے ری بھی ہوگی اور راحت سے رہا کرنا
پیے گی پانی جس دن اوٹنی تم دودھ دولینا
اگلے
روز پانی لینا اور زہمت نہیں دینا
اسی صورت سے ایک دن دودھ پیتے ایک دن پانی
بسر ہوتی تھی یوں ہی آ گئی ایک یہ پریشانی
جہاں جا تے تھے ان کے جانور کی سب کو حیرانی
یہ جاتی اوٹنی وہ بھاگ جا کے کھٹ کی پیشانی
کسی کے جانور کو کچھ نہ ملتا سب یہ کھا جاتی
وہ بھوکے رہتے اپنا پیٹ بھر کر روز آ جاتی
شکایت کی تو پھر سوالے نے ایک ایک دن دیا ان کو
مویشی ایک دن اور اوٹنی ایک دن کہا ان کو
سر آگاہوں میں ایک دن جانور جاتے تھے چرنے کو
اور ایک دن اوٹنی جاتی تھی اپنا پیٹ بھرنے کو
کہا سوالے نے ان سے اوٹنی ہے رب تعالیٰ کی
اسے تکلیف مت دینا یہی مرضی ہے مولا کی
اسے ایزا اگر دوگے عذاب اللہ کا آئے گا
تمہیں پھر خون کے آسو وہ رہ رہ کر رلائے گا
اس کی در سے وہ سارے اوٹنی کو پیار کرتے تھے
حفاظت کر کے اس کی جشن کا اظہار کرتے تھے
جمع کرتے تھے گھی سب اوٹنی کے دودھ مکھن سے
پھر بیچ دیتے تھے علب رہتے تھے الجھن سے
برس یوں چار سو گزرے پیمبر حضرت سوالے
کہیں بیٹھے ہوئے تھے ایک جگہ پر حضرت سوالے
تھے دس انسان بھی بیٹھے ہوئے سوالے کی خدمت میں
یہی اشراف تھے اس قوم کی پوری حقیقت میں
کہا سوالے نے لڑکا پیدا ہوگا اس مہینے میں
وہ جس کے گھر میں ہوگا مشکلیں ڈالے گا جینے میں
اسی سے قوم سب ہوگی دبا یہ بات مانو تم
ہلاک ہو جائیں یہ سب ہی حقیقت اس کو جانو تم
جو دس انسان تھے وہ حاملہ ان سب کی بیوی تھی
جنے لڑکے انہوں نے گود میں سب لے کے بیٹھی تھی
خوشی کی بدلیاں چھائیں جو دیکھا اپنے بچوں کو
خبر سن کر انہوں نے مار ڈالا اپنے بچوں کو
نہ مارا
ایک عورت نے نہ تھا کوئی پسر اس کا
رکھا قدر نام اس کا رہا باقی پسر اس کا
ہوا لڑکا بھی بالغ پر ہوا کچھ بھی نہیں اب تک
جنہوں نے مار ڈالے تھے وہ پچتا کی رہیں اب تک
پیمبر حضرت صالح کو سب جھوٹا بتاتے تھے
اسی پائس تو اب ایمان ان کے دگمگاتے تھے
قبیلے میں ہی ایک منحوس اور بدکار عورت تھی
بہت سے جانور تھے گھاس کی اس کو ضرورت کی
یہ بولی آر سے وہ اونٹنی جو چرنے جاتی ہیں
مویشی بھوکے رہتے ہیں میرے سب گھاس کھاتی ہیں
میرا بادہ ہے گر تو اونٹنی کو مار ڈالے گا
ملے گی میری قربت اور جو چاہے گا پالے گا
ملا قدار اس سے مقصد دل کہہ دیا اس نے
قبیلوں سے فرق ایک آدمی فورا لیا اس نے
جو آئی پانی پینے اونٹنی تو تیر ایک مارا
ہوئی ضخمی لگا جب تیر پھوٹی خون کی دھارا
چلائی سب نے پھر دلوار ٹانگیں
کاٹ دی اس کی
ہوئی بےحوش دو حصوں میں ٹانگیں باٹ دی اس کی
تڑپ کر مر گئی بچے نے دیکھا حال ماں گھر کا
تو وہ بھاگا دکھایا راستہ اللہ نے پتھر کا
کہاں سے اس کی مان کے لی تھی اس میں بھس گیا بچا
کیا پیچھا مگر محفوظ ان سب سے رہا بچا
شراب ان سب نے پی کر اس کو مارا تھا یہ لکھا ہے
یہ ورنہ چھو نا پاتے اونٹنی کو قول سچا ہے
خبر سوالے نے جب پائی بڑے صدمے اٹھاتے تھے
کرو تم تین دن تک ایشیے سب کو بتاتے تھے
میرا باقا ہے تم سے تین دن زندہ رہو گے تم
خدای قہر اب آئے گا دنیا سے اٹھو گے تم
کہا سب کافروں نے قہر حق کی کیا نشانی ہے
بتایا ان کو سوالے نے یہ سب اس کی کہانی ہے
تمہارا سرخ رنگ ہو جائے گا جب پہلا دن ہو گا
بدن پھر زرد ہو جائے گا جبکہ اگلا دن ہو گا
سیاہ ہو جائے گا پھر تیسرے دن یہ علامت ہے
بیانک آئے گی آواز جب سمجھو قیامت ہے
نشانی ہو گئی ظاہر سبھی للکار نے آئے
جنابِ حضرتِ سوالے کو قافر مار نے آئے
تھے گھر میں حضرتِ سوالے نبی جبریل نے آ کر
ہلا دی گھر کی دیباریں تب ہی اکعان کے اندر
کل کر باگ نکلے سب جو گھر سے آ گئے باہر
تمہاری چیخ ایک جبریل نے سب مر گئے خود سر
ملے سب خاک میں مردود نہ زندہ رہا کوئی
چھپے تھے کچھ کوئے میں مر گئے نہ بچ سکا کوئی
مرے سارے قبیلے تم میں بو چنگھار ایسی تھی
ہر ایک کافر کی ایک لمحے میں جس نے جان لے لی تھی
نہ مانا رب کا کہنا ظالموں نے یوں عذاب آیا
ہوئے فنار ظالم ان پہ مولا کا عطاب آیا
خدا کے حکم پر دنیا میں جو سر کو جھکائے گا
اسے رب حادثہ بے زندگانی سے بچائے گا
گئے پھر سال
ملک شام شہر اسکان کے اندر
وہاں کچھ دن رہے اور موت پائی آن کے اندر
خدا کے سارے نبیوں پر ہمیں ایمان لانا ہے
کبھی شیطان کے پہکائے میں ہر کس نہ آنا ہے
ہے یہ
احسان بھی انوار ہم پہ رب
اکبر کا
فیس بنتاں
اکبر ہاں
ز loudly
کا
سنایا
ویو
ایم بن