شام ڈھلتی ہے تنہائی چھوٹی نہیں
یادوں کی لہروں میں
گھویا ہوں کہیں
ہوا بھی دھیرے سے تیرا ذکر کرے
جانی کیوں تو ابھی دل کے پاس رہے
تجھ بین ادھورا سا لگتا ہوں
تجھ بین خود سے بھی خفا ہوں
ہر ایک راہ پہ تیرا پتہ دھونڈتا
پر تُو کہاں ہے یہ دل نہیں جانتا
بھیگی سی آدھیں
محسوس ہوتی ہے
راتوں کی باتیں
خاموش ہوتی ہیں
چند بھی روٹھا ہے تاروں کی بھیڑ میں
تیرے بینا یہ رات بھی ادھوری سی ہے
کاش ایک بار تُو آواز دے
کاش پھر سے وہ ملاقات ہو
کاش یہ پل وہی رک جائے جہاں تُو تھا جہاں ہم ساتھ ہو
تجھ بین ادھورا سا لگتا ہوں
تجھ بین خود سے بھی خفا ہوں
ہر ایک راہ پہ تیرا پتہ دھونڈتا پر تُو کہاں ہے یہ دل نہیں جانتا
03:56