ڈوٹے ڈوٹے لمحوں کو
پھر یادوں میں سجاتے ہیں میری تنہائی اور میں
تنہا تنہا آئینوں میں رہ گئی درارے ہیں
میری پرچھائی اور ہے
آتی جاتی لہروں میں جو چہرے گم ہو جاتے ہیں
پھر نہ کبھی وہ ملے
سکھی سکھی آنکھیں کہیں پتھرا نہ جائے
جی چاہے تو رو بھی لے
ہلکے ہلکے قدموں کے نشاں کو وہ میٹاتے ہیں
میری گہرائی اور ہے
آتی جاتی راہوں میں جہاں دیکھو دیواریں ہیں میری
اوچھائی اور ہے
چھوٹی چھوٹی خواہشوں سے پل جو ہم بناتے تھے
ہوں گے کہیں نہ کہیں
ملتے ملتے وہ لمحے بھی مل ہی جائیں گے رو نہ نہ تو اب کبھی
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật