سہاراں چاہیے سرکار زندگی کے لیے
تڑپ رہا ہوں مدینے کی حاضری کے لیے
میرا دل تڑپ رہا ہے میرا جل رہا ہے سینہ
کے دوا وہی ملے گی مجھے لے چلو مدینہ
نہیں مالو زر تو کیا ہے میں غریب ہوں یہی نا
میرے عشق مجھ کو لے چل تو ہی جانی بے مدینہ
یا مصطفی خدا رہا دو ازن حاضری کا
کر لو نظارہ تر میں آپ کی گلی کا
اک بار تو دیکھا دو رمضان میں مدینہ
بے شک بنا لو آقا مہمان دو گھڑی کا
دل رو رہا ہے جن کا آنسو چھلت رہے ہیں
اُن عاشقوں کا صدقہ بلوائی مدینہ
تڑپ رہا ہوں مدینہ کی حاضری کے لیے
یا رسول اللہ حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
یا رسول اللہ حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے
تڑپ رہا ہوں مدینہ کی حاضری کے لیے
اک روز ہوگا جانا سرکار کی گلی میں
ہوگا وہی ٹھیکانا سرکار کی گلی میں
آنکھیں تو دیکھنے کو پہلے ہی مسترب تھیں
دل بھی ہوا روانا سرکار کی گلی میں
دل میں نبی کی یادیں لب پر نبی کی ناتیں
جانا تو ایسے جانا سرکار کی گلی میں
سمجھیں گے ہم نیازی ان کی کرم نوازی
جس دن ہووے روانا سرکار کی گلی میں
تڑپ رہا ہوں مدینہ کی حاضری کے لیے
یا رسول اللہ
مدینہ جاؤں پھر آؤں دوبارہ پھر جاؤں
یہ زندگی میری یوں ہی تمام ہو جائے
تڑپ رہا ہوں مدینہ کی حاضری کے لیے
تروا کے جانے والے جا کر بڑے عدب سے
میرا بھی قصہِ غم کہنا شہِ عرب سے
کہنا کہ شاہِ عالم ایک رنج و غم کا مارا
دونوں جہاں میں جس کا ہے آپ ہی سہارا
حالاتِ پرلم سے اس دم گزر رہا ہے
اور کافتے لبوں سے فریاد کر رہا ہے
بارے گناہاں اپنا ہے دوش پر اٹھائے
کوئی نہیں ہے ایسا جو پوچھنے کو آئے
بھولا ہوا مسافر منزل کو ڈونڈ تا گئے
تاریکیوں میں ماغے کامل کو ڈونڈ تا گئے
سینے میں ہے اندھیرا دل ہے سیاہا کھانا
یہیں میری کہانی سرکار کو سنانا
کہنا میرے نبی سے محروم ہوں خوشی سے
سر پر ایک عبرِ غم ہے عشقوں سے آنکھ نم ہے
پامالِ زندگی ہوں سرکار امتی ہوں
امت کے رہنما ہو کچھ عرضِ حال سن لو
فریاد کر رہا ہوں میں دل فیگار کب سے
میرا بھی قصہِ غم کہنا شہِ عرب سے
ترپ رہا ہوں مدینے کی حاضری کے لیے
اے عظیم مدینہ جا کر نبی سے کہنا
سوزِ غمِ عالم سے اب جل رہا ہے سینہ
کہنا کہ بڑھ رہی ہے اب دل کی استیرہ بھی
قدموں سے دور ہوں میں قسمت کی ہے خرابی
کہنا کہ دل میں میرے عرماں بھرے ہوئے ہیں
کہنا کہ حسرتوں کے نشتل چوبے ہوئے ہیں
ہے عرض یہ دل کی میں بھی مدینے جاؤں
سلطانِ دو جہاں کو داگے جیگر دکھاؤں
کاٹوں ہزار چکر قیوہ کی ہر گلی کے
یوں ہی گزار دوں میں ایام زندگی کے
پھولوں پہ جانے ساروں کاٹوں پہ دل کو واروں
ذروں کو دوں سلامی گھر کی کروں غلامی
دیواروں دل کو چوموں چوکھٹ پہ سر کو رکھ دوں
روزے کو دیکھ کر میں روتا رہوں برابر
عالم کے دل میں ہے یہ ہم سب کے دل میں ہے یہ
ہم سب کے دل میں ہے یہ حسرت نہ جانے کب سے
میرا بھی قصہِ غم کہنا شہِ عرب سے
ترپ رہا ہوں مدینے کی حاضری کے لیے
یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
نصیب والوں میں میرا بھی نام ہو جائے
آقا نصیب والوں میں میرا بھی نام ہو جائے
جو زندگی کی مدینے میں شام ہو جائے
ترپ رہا ہوں مدینے کی حاضری کے لیے