ہائے سکینہ
ہائے سکینہ
ہائے سکینہ
شبر سے کوئی سکینہ کو
چھڑانے آئے
شبر سے کوئی سکینہ کو
چھڑانے آئے
اس کو دروں سے تماجوں سے
اس کو دروں سے تماجوں سے
بچانے آئے
شبر سے کوئی سکینہ کو
چھڑانے آئے
شبر سے کوئی سکینہ کو
ہائے رو کے غادی سے یہ کہتی تھی علیؑ کی بیٹی
ہائے رو کے غادی سے یہ کہتی تھی علیؑ کی بیٹی
آگ معصومہ کے کرتے کی بجھانے آئے
شبر سے بھوئی سکیوں کی چھوڑنے آئے
شبر سے بھوئی سکیوں کی چھوڑنے آئے
ہائے لے گئے لاش کو رسیوں
میں جکڑ کر اس کی
ہائے لے گئے لاش کو رسیوں
میں جکڑ کر اس کی
جب اسے باپ کے لاشے سے
جب اسے باپ کے لاشے سے
ہٹانے آئے
شبر سے بھوئی سکیوں کی چھوڑنے آئے
شبر سے بھوئی سکیوں کی چھوڑنے آئے
شبر سے بھوئی سکیوں کی چھوڑنے آئے
ہائے کھاکے پتھر سہر بازار جو سوئی تھی ابھی
ہائے کھاکے پتھر سہر بازار جو سوئی تھی ابھی
تازیاں نے اسی بچی کو
تازیاں نے اسی بچی کو
چگانے آئے
شبر سے بھوئی سکیوں کی چھوڑنے آئے
شبر سے بھوئی سکیوں کی چھوڑنے آئے
ہائے جس کے رونے سے حسین ابن علی آتے ہیں
ہائے جس کے رونے سے حسین ابن علی آتے ہیں
ہائے جس کے رونے سے حسین ابن علی آتے ہیں
ابن علیؑ روتے ہیں
ہر شکی اس کو تماچوں سے
ہر شکی اس کو تماچوں سے
رولانے آئے
شہر سے بھوئی سکھی روحنی چھوڑا ہے
شہر سے بھوئی سکھی روحنی چھوڑا ہے
آئے ترس کھا کے جو مسلمان کبھی دے پانی
آئے ترس کھا کے جو مسلمان کبھی دے پانی
آئے پانی اصغر کو وہ نیزے پہ پیلانے آئے
شہر سے بھوئی سکھی روحنی چھوڑا ہے
شہر سے بھوئی سکھی روحنی چھوڑا ہے
آئے قیدی سجا دلیے
آئے قیدی سجا دلیے
ہاتھوں پہ سر بابا کا
آئے قیدی سجا دلیے
ہاتھوں پہ سر بابا کا
آئے قید خانے میں سکینہ کو
قید خانے میں سکینہ کو
سولانے آئے
شہر سے بھوئی سکھی روحنی چھوڑا ہے
شہر سے بھوئی سکھی روحنی چھوڑا ہے
شہر سے بھوئی سکھی روحنی چھوڑا ہے
حضردارو زندان شام میں
جب مولا حسین کی مظلومہ بیٹی
مظلومیت کی حالت میں
بی بی کی شہادت ہو گئی
تو اس شہادت سے
ایک لمحہ پہلے
میرے مولا سجاد نے
پوچھا تھا سکینہ
میری بہن
مجھے کوئی اپنی بہن
اپنی آخری حسرت تو بتا دو
حضردارو سنو گے
شہزادی نے
کیا حسرت بتائی
ہائے بولی معصوم
آکے دفنانا
مجھے ایسی جگہ
ہائے بولی معصوم
آکے دفنانا
مجھے ایسی جگہ
ہائے جس جگہ پھر
نہ مجھے شمر
جس جگہ پھر
نہ مجھے شمر
ستانے آئے
شمر سے کوئی سکینہ
ہم بھی چھوڑا ہے
شمر سے کوئی سکینہ
ہم بھی چھوڑا ہے
ہائے مرتبہ روکے
یہ قائم کو
صدا دیتا ہے
ہائے مرتبہ روکے
یہ قائم کو
صدا دیتا ہے
ہائے اب تو معصوم
آکو آزاد
اب تو معصوم
آکو آزاد
کرانے آئے
شمر سے کوئی سکینہ
ہم بھی چھوڑا ہے
شمر سے کوئی سکینہ
ہم بھی چھوڑا ہے
شمر سے کوئی سکینہ
ہم بھی چھوڑا ہے
ہائے مرتبہ روکے