کربلا میں اسہر ہے قید میں سکینہ ہے
آبیدِ حزیث جاب سنا رباب نے
مل گئی رہائی اس کو قید ظلم سے
اب عسیرِ شام سب بطن کو جائیں گے
سر کو پیٹ کر یہی کہا رباب نے
قید میں سکینہ ہے کربلا میں اسہر ہے
قید میں سکینہ ہے
اے میرے پیسر بتا کہ اب میں کیا کروں
لٹ گیا دیاری شام میں میرا سکون
گود جب جائے چکی تو جی کے کیا کروں
عمر بھر کروں گی بین میں یہ سوچ کے
قربلا میں اسہر ہے قید میں سکینہ ہے
قربلا میں اسہر ہے قید میں سکینہ ہے
قربلا میں اسہر ہے قید میں سکینہ ہے
بے کسی ستم گریمہ سائی بو علم
بے گھری کا رنج اور اس پہ یہ ستم
دخترِ حضی کا درد اور پسر کا غم
جھلنی ہو گیا غموں سے دل یہ سوچ کے
قربلا میں اسہر ہے قید میں سکینہ ہے
قربلا میں اسہر ہے قید میں سکینہ ہے
قربلا میں اسہر ہے قید میں سکینہ ہے
دل کی ہر صدا میں بینے ہوں گے اب یہی
بن گئی کتابِ درد میری زندگی
قبرِ دھوپ میں میرے صغیر کی بنی
اور ستم کی قید میں سکینہ ہو گئی
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کیا مجھے سکون آئے گا بینا پسر
آبی دے حضین بتاؤ کیسے جاؤں گھر
زبط کیا کروں کہ موکو آ گیا چگر
زندگی میں کچھ نہیں سوائے درد کی
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
بے کسی ستم گریمہ صائب و علامہ
ایک گھری کا رنج اور اس پہ یہ ستم
دکھتر حضین کا درد اور پسر کا غم
چلنی ہو گیا غموں سے دل یہ سوچ کے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
اب تو صرف ماتم حسین کام ہے
درد ہی حیات بے سکون کا نام ہے
ایک ہی صدا زبان پر مدام ہے
ایک درد کربلا ہے ایک شام ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
اب مجھے وطن میں کیا قرار آئے گا
یہ خیال ہر گھڑی مجھے رولائے گا
آسوں کا قافلہ یہی بتائے گا
غم ہی غم سہے گا
مجھے حیات میں رباب دے
کربلا میں اصغر ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اسی طرح ہے قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اسی طرح ہے قید میں سکینہ ہے
عمر بھر رباب سائے میں نہ جائے گی
یاد بے زبان
مجھے لہو رولائے گی
واپس ایک یاد کس طرح بھولائے گی
اب یہ دونوں زخم دل کے پڑھ نہ پائیں گے
کربلا میں اسغر ہے
قید میں سکینہ ہے
مزہر عابدی قلم کی آنکھ بھی ہے نم
دے بسیر و باب کی نہ ہو سکی رقم
آمیرِ عزیز اگر تمہیں ہے سبت غم
تم سناؤ بیرون
جو کیے رباب نے
کربلا میں اسغر ہے
قید میں سکینہ ہے
کربلا میں اسغر ہے
قید میں سکینہ ہے
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật