کرسنا شاروخ رب کی
چھول قلفت کے چنون
کرسنا شاروخ رب کی
چھول قلفت کے چنون
واقعہ شہداد کی جلت کا یہ مجھ سے سنو
کرسنا شاروخ رب کی چھول قلفت کے چنون
واقعہ شہداد کی جلت کا یہ مجھ سے سنو
تین سو سالوں کی اس نے پائی رب سے زندگی
نام گھاشتداد اس کا اس پہ دولت کی بڑی
اس طرح پیدا ہوا ہے کیسی جنت ہے بنی
اس طرح تاریخ میں یہ بات ہے سچی لکھی
نیلے نیلے ایک سمندر میراں تھا ایک جہاز
شادما ہو کر کے بیٹھے تھے بہت اس میں سوار
ایک عورت حاملاتی ہے اسی کا ماجرا
لکھا ہے تفصیل سے یہ میں نے سارا واقعہ
پانی میں توفان آیا لوگ سب گھبرا گئے
آنکھوں کے آگے سبی کے پھر انبیلے چھا گئے
پان کی لہروں سے کشتی کے ہوئے تختیں جدا
حاملہ عورتی کے حصے میں بھی تختا آ گیا
تخت پہلے پی وہ عورت درد زہر اس کو ہوا
کوئی بھی اُن سے نہیں تھا کوئی نہ تھا حملہ باہ
ایک شاطر اس کے پیٹا پیدا تخت پر ہوا
پھر ملاق
الموت کو یہ حکم اللہ کا ہوا
تخت پر لیٹی جو عورت اس کو تم بھی دیکھ لو
حکم ہے میرا یہ اس کی روح جلدی کی جلو
آئے اذرائیل فورا روح اس کی کینچلی
رہ گئی تختیں بے تنہا بچے کی وہ زندگی
گود میں آیا نہیں تھا اپنی ماں کے شیر فار
اِس کے پیل کیا دکھلا رہی ہے قدرت پرورد دار
پانی کی لہروں میں لوگوں تختا وہ بہتا چلا
ایک انسان کے لیے پھر مومنوں تختا ملا
اس نے تختے کو نکالا ایک قبر کھوئی وہاں
اور نہی وہ عورت گود میں بچہ لیا اس بینا اولاد کوئی اپنے گھر کو چل دیا
اپنی بی بی کے لیے پھر اس نے وہ بچہ دیا
مان کر
اولاد اپنی کرتے تھے اس کو وہ پیار
پھر شدہ بھی رکھا ہر گھڑی رہتے نسات
تھا بہت چالاک وہ اور تھا بہادر وہ بڑا
سات سالوں پی ہوئی جب عمر تو ایسا ہوا
بچوں میں شدہ بھی ایک دن کھینتا تھا پیار سے
ایک ہوا اعلان بچے سن کے اس کو در گئے
آ رہا ہے بادشاہ اس راہ کو چھوڑو سبھی
سن کے بچے در گئے اور گھر کو وہ بھاگے تبھی
رک گیا شداد اس جا وہ نہ گھبرایا سنو
آڑ میں ٹیلے کی بیٹھا وہ تبھی اے مومنوں
آڑ میں ٹیلے کی رہ کر سب نظارہ کر لیا
شاہ کا لشکری وہاں سے اوچھ بسدم کر گیا
آنکھوں میں شداد کی پھر یہ نظارے آگئے
کچھ بشر پھر اس جگہ پر مومنوں کے آگئے
پوٹلی رستوں میں ان کے آگئی تھی اتی نظر
ایک انسان نے اٹھائی پوٹلی وہ بے خطر
گھولا اس نے پوٹلی کو سرمیدانی کی رکھی
دیکھ کر وہ سرمیدانی کھل گئی دل کی پھلی
شاہ سرماں ڈالنا جب اس نے اپنی آنکھ میں
اس کا ساتھی اس سے بولا بات کچھ میری سنے
ہو گیا نقصان کچھ تو تو غزب ہو جائے گا
آزماوں پہلے سرما تو بھلا ہو جائے گا
اس نے اپنی جب کے نظرے چار جانب کو کیا
آن میں ٹی لے کی اس کو ایک لڑکا مل گیا
لڑکا وہ شہداد ہی تھا پاس انسان کے گیا
آنکھوں میں شہداد کے پھر اس نے سرماں بھر دیا
سرماں لگتے ہی انوکی ہو گئی اس کی سہل
سونا چاندھی جو دفن تھے آ گئے وہ سب نظر
ہو گئے چودا طبق اب اس کے روشن کو ستو
کھالا لڑکا یہ کیا اس نے سنو
شون اس نے یہ کیا تب آنکھ اندھی ہو گئی
وہ بشر سب بھاگ نکلے تو خوشی اس کو ہوئی
مار کر تھا کے بہت ہی زور سے ہسنے لگا
ساتھ سرمیدانی لے کر اپنے گھر وہ آ گیا
حال مہکر سے کہا اور یہ کیا شہداد نے
پھر چلا لے کر کے تیشا وہ اندھیری رات میں
خودا اس نے پھر زمین کو سونا چاندھی لی نکال
پا گیا جب سونا چاندھی ہو گیا پھر وہ نحال
اس طرح سے سونا چاندھی کافی کی اس نے جمع
مال دولت میں ہوا وہ مومن سب سے بڑا
شہر کا سردار جو تھا ختل اس کو تر دیا
فیل یہ شداد کا تھا غم نہیں اس کو ہوا
بن گیا ظالم جابر ظلم بوٹھانے لگا
شہر کا سردار بن کر سب کو دھمکانے لگا
عمر جیسے بڑھ رہی تھی ظلم بھی بڑھتا گیا
ہے روایت میں سنو یہ دوستو لکھا ہوا
بے پناہ مالو دولت کر لیا اس نے جمع
ہر بشر کے دل میں اس نے خوف اپنا بھر دیا
وقت کے جب حاکموں کو ہو گئی اس کی خبر
جنگ کو تیار کر کے لائے وہ لشکر ادھر
کر لیا شرداد نے بھی اپنا ایک لشکر عظیم
مار ڈالا حاکموں کو اس کا کھا لشکر عظیم
ان کی سرحد پہ بھی قبضہ ہو گیا شرداد کا
رک نہیں پایا کسی سے آگے ہی بڑھتا رہا
سلطنت قائم کی اس نے بادشاہ وہ بن گیا
ترک اور ہندوستان میں اس کا قبضہ ہو گیا
سارا عربستان اس کا سارا ہی اردن تھا
ہر طرف تھا اس کا چرچہ ہر طرف ہی نام تھا
کوئی بھی اس کے مقابل جب نہیں انسان رہا
تو تکبر نے خدایت کا بھی
دعویٰ کر دیا
حکم ہے میرا یہ سارے لوگ اس کو مان لو
حکم ہے میرا یہ سارے لوگ اس کو مان لو
کر دیا اعلان اس نے میں خدا ہوں جان لو
رب کے جو کہنے بندے سب ہی حیران ہو گئے
ایک دن شرداد سے وہ اس طرح کہنے لگے
توبہ کرلے تو
گناہ سے رب کی کرلے اندگی
اس خدا کو رب کی کرلے اندگی
مان لے بات ہماری تو سکونتو پائے گا
حشر میں اللہ سے گنزار جنت پائے گا
خوبیاں جنت کی ساری عالموں نے کی بیان
کے اس طرح کہنے لگا
جس کو دیکھا ہی نہیں ہے اس کی کیا ہو بندگی
میں خدا ہوں جان لو تم میری طاقت ہے بڑی
دنیا میں جنت بنے گی تم کو میں بھی کھلاں گا
اور اسی جنت میں رہتر تم کو میں بھی کھلاں گا
عالموں سے وعدہ لوگوں کر دیا شرداد نے
پھر وزیروں کو بلایا دوستو شرداد نے
جو تھے دانشمند گزرا حکم ان کو مل گیا
ان کی تھی تعداد ایک سو مومن ایسا ہوا
خلد کی خاطر زمین کے دوستو ڈھونڈی گئی
مل گئی ان کو زمین پا میرے جنت پھر ہوئی
خلد کی جو تھی زمین کچھ خلیت مجھ سے سنو
کوس دس لمبا کھا کیلا کوس دس چوڑا سنو
اس کی تھی اونچائی چالس کوس کی ہے یہ لکھا
اس طرح بنیاد کھو دی پانی باہر آ گیا
چمچما کی انکیں سونے کی لگائی اس جگہ
ایک ہزار شخص اس میں خلد میں ایسا ہوا
ایک ہزار اس میں محل کے سونے چاندی کے بنے
باغ
پھولوں کے سجے تھے اور قرود کے بنے
چہ چہاتے تھے پرندے ہر طرف تھی بس بہار
بہہ دے تھی اس میں جھرنا شربت کا بہار
بدلے میں پتھر کے اس میں رکھتے موٹی سنو
پیڑوں میں تھے پھل لگے وہ ہیرے موٹی کے سنو
برسیاں ہر محل میں تھی سونے چاندی کی بچیں
فرش تھا چاندی کا اس میں اور چھتے یا اوٹ کی
خلد کی ہر شیع کی اپنی شان میں سب سے جدا
پیڑوں میں پتے زمرد اور تنا تھا شیر سا
دنیا کی فرداؤ سے عشرت آ گئی جب آج پر
دنیا کی فرداؤ سے عشرت آ گئی جب آج پر
ہو گئی شہنداد کو بھی پھر سنو اس کی خبر
ہو گئی شہنداد کو بھی پھر سنو اس کی خبر
چندیاں دیدار جنت کے لیے شہنداد جب
آج ہمیں عالموں ملے تو ان سے بولا تہر کر
بن گئی ہے میری جنت خند کو میں چل دیا
سوچتا تھا اب خدای دعوٰی پورا ہو گیا
چاندی کی خالیل اس کے آئی استقبال کو
پاس جنت کے گیا تو ہو گیا ایسا سنو
پہنچا دروازے پہ جنت دیکھا یہ شہنداد نے
ہے
انوکی شکل والا ایک انسان سامنے
کون ہے تو نام کیا ہے یہ کہا شہنداد نے
بولا وہ ازرائیل ہوں میں موت پیری جان لے
روح اس کی کھینچنی پھر ماجیرا ایسا ہوا
ایک قدم باہر تھا اس کا ایک جنت میں گیا
آنے والے گور میں ایک وقت ایسا آئے گا
ایک انسان خلد میں شہنداد کی بھی جائے گا
امتی ہوگا نبی کا پوٹی کرنے تلاش ہے حدیث مصطفیٰ وہ جائے گا جنت کے پاس
دیکھ لے شارخ لطیفی شان اللہ پاک کی
بن گئی عبرت کے بائز خلد شہنداد کی