Nhạc sĩ: Raju Khan
Lời đăng bởi: 86_15635588878_1671185229650
موزز سامین حضرات شبنم میوزک اور انڈی جے جنیجہ پیش کر رہے ہیں
حاجی تصنیم عارف سید پور بدائیونی کی آواز میں ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ
جس کا عنوان ہے واقعہ سمرقند کا
بادشاہ اور غزالہ یہ بادشاہ جو سمرقند کا تھا
بڑا ہی ایار مکار ایاش تھا اور ہر چھے مہینے
کے بعد جس کی بیٹی بھی اچھی خوبصورت ہوتی تھی
اس کو اپنے حرم میں بلا کر اس کو اپنی بیوی بنا لیا
کرتا تھا اور چھے مہینے کے بعد اس کو قید خانے میں
ڈال دیا کرتا تھا پھر کوئی دوسری لڑکی سے شادی رچا لیا کرتا تھا
مگر یہ دیکھئے کہ جب غزالہ نام کی یہ
ایک تاجر کی بیٹی اس کے محل میں آئی
تو اس محل میں کیا کیا ہوا اور پھر یہ
غزالہ جو تھی جو روزہ بھی رکھتی تھی
نماز بھی پڑھتی تھی اس نے اللہ سے جب دعا کی
تو اس کی دعاوں سے اس بادشاہ کا انجام کیا ہوا
اور وہ اپنے انجام تک کس طرح پہنچا اور
یہ واقعہ جو آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں
حاجی تصنیم عارف اور یہ کلام لکھتا ہے
جناب قاری انوار اعلام ادائیپوری نے
میوزک سے سمارا ہے راجو خان جی نے یہ ریکارڈنگ
اس کلیانی سٹوڈیو دریا گنجنی دلی کی ہے
تو آئیے سامین یہ پورا واقعہ بڑے ہی اچھے انداز
میں ہمارے قاری صاحب انوار اعلام صاحب نے لکھا ہے
مگر آپ سے گزارش ہے کہ اس کو شروع سے آخر تک توجہ سے سنیے اور
دیکھئے کہ اس ظالم بادشاہ کا اللہ تبارک وطلہ نے کس طرح خاتمہ کیا
بلائزہ کیجئے گا سمرقند کا بادشاہ اور غزالہ
ذکر ہے انوار اس میں رب کے دل بند کا سنو
ظالم و جابر تھائے سلطان سمرقند کا سنو
ذکر ہے انوار اس میں رب کے دل بند کا سنو
ظالم و جابر تھائے سلطان سمرقند کا سنو
داستان لکھتے ہوئے یہ خوب روتا ہے قلم
سسکیوں کی گردشیں ہیں پھر بھی لکھتا ہے قلم
بادشاہ تا جو سمرقند کا وڑا ایار تھا
اس کے جاسوسوں سے کھا کر خوف سہمے تھے سبھی
بیٹیاں اپنی چھپا کر اس سے رکھتے تھے سبھی
ایک دن اپنا بدل کر بھیس نکلا سیر کو
شہر کے وہ ہر گلی کوچوں میں پہنچا سیر کو
میں جب بھی دو شیزا ایک دیکھی نظر اس پر پڑی
حسن ایسا تھا بنا اس کا تھا جیسے چاندنی
دیکھ کر رانائیاں اس کے شباب و حسن کی
ہانس لگتی عارضوں نے اسے آواز دی
عشق کا تھا ایک نشتر جو جگر کے پار تھا
دیکھ کر اس کے رخے زیبا کو وہ بیمار تھا
آ کے اپنے محل میں بولا وزیر خاص سے
دل پہ جو گزرا وہ بتلایا
وزیر خاص سے
تم پتا کر کے بتاؤ
کون ہے وہ ماہرو
لے گئی ہے چین دل کا چھین کے وہ ماہرو
اس مہے کامل کو دیکھا آک خیرا ہو گئی
چھن گیا زبط و شکے بھر ایک طمناں سو گئی
ایک سوداگر کی بیٹی ہے پتا جب چل گیا
دور وحشت ہو گئی غم چاہتوں میں ڈل گیا
باپ تو اس نازنی کا تھا نہیں کہ تھا چچا
تھی کہ فالک میں اسی کی تھا ضعیف اس کا چچا
بادشاہ نے اس کو بلوایا تو سن کر ڈر گیا
کیا بلا
نازل ہو دل پہ سوچتے ہی مر گیا
کی تسلی جب بھتی جی نے تو آیا محل میں
شاہ نے اعزاز سے اس کو بٹھایا محل میں
دور
غبرہت ہوئی تو اس سے کہتا تھا وزیر
تیری قسمت کا ہتارہ آج پر بولا وزیر
آپ کی پیاری بھتی جی کا نصیبہ خوب ہے
سلطنت کی ملکہ بن جائے گی رتبہ خوب ہے
بادشاہ کا ہے یہ پیغام میں نکاہ کر لو قبول
ورنہ اٹھوا لیں گے اس کو گر نہ ہو تم کو قبول
فس گئی آواز سن کر حلقوں میں حیران تھا
راز وہ اب کھل گیا جس راز اسے انجان تھا
کر گیا پہر
حکومت سے وہ ٹھنڈی سانس لی
جھک گیا پھر سر ندامت سے پشیمانی ہوئی
آ گئی پھر گھر کے دروازے پہ شاہی پال کی
محل میں آئیں کنیزیں لے کے دلہن چاند سی
حسن کے جلووں سے اس کے جگمگا اٹھا محل
اب وہ تھی ملکہ یہاں کی یہ اسی کا تھا محل
دن بہ دن اس بادشاہ کی
عاشقی بڑھتی گئی
دھیرے دھیرے الفتوں کی چاندنی چڑھتی گئی
اس کو ملکہ سے جدا رہنا گوارا تھا نہیں
مہکتا رہتا صدا کلشن طریقہ تھا نہیں
شیعہ مہینے بعد ملکہ کو بدل دیتا تھا وہ
ایک نئی دوشیزہ لاکر پاس رکھ لیتا تھا وہ
رانیاں کی تید کافی اور پریشان حال تھی
ان کی تیخانے میں رہ کر حسرتیں پامال تھی
بادشاہ نکلا محل سے ایک دن ایسا ہوا
رازدارِ بادشاہ تی ایک کنیزائی کہا
چل یہ ملکہ تم کو تیخانے دکھا لاؤں ذرا
بادشاہ باہر گئے ہیں محل ہے سونا پڑا
چھوڑ کر ملکہ کو تیخانے میں ظالم آگئی
عورتیں دیکھیں جو ملکہ نے وہاں گھبرا گئی
شیع مہینے کا تھا جو دستور سمجھایا اسے
وہ بھی تھی ملکہ کبھی یہ سب نے بتلایا اسے
سبر کی سینے پہ سل رکھ لو یہ سہنا ہے تمہیں
عمر بھر تاریخ تیخانے میں رہنا ہے تمہیں
آخری حصہ تھا تیخانے کا جو دیکھا ادھر
ایک عورت نوجوان سجدے میں تھی آئی نظر
خود بخود ملکہ کا دل کھچنے لگا کیا کی خبر
یہ کوئی اپنی ہے وہ آئی دعائیں مانگ کر
تھا نظر کا جار ہونا دیر تک سکتا رہا
دل ہی دل میں حیرتوں کا سلسلہ چلتا رہا
چیخ پھر ملکہ کی نکلی
اے غزالہ آتا ہا
دوڑ کر لٹتی غزالہ اور بڑی آپا کہا
دیر تک روتی رہی عشق فغاں تھمتے نہ تھے
عورتیں حیرانہ ہوں ایسے وہاں لمحے نہ تھے
ایک عورت نے ملکہ سے کہا بتلائیے
کیا غزالہ سے ہے رشتہ آپ کا فرمائیے
بولی ملکہ یہ میری چھوٹی بہن ہے جانئے
ہے خراسان اپنا آبا یہ وطن یہ مانئے
باپ عابد اور زاہد تھے ہمارے با خدا
دل میں تھا عشق رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ان کے با خدا
عشق میں پیارے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے روتے تھے وہ
تھے غزالہ سے بڑے معنوس اور اچھے تھے وہ
ایک دن لخپارگاہ مصطفیٰصلى الله عليه وسلم کا کر لیا
حج عدا کرنے کا باپا نے ارادہ کر لیا
ساتھ میں لے کر غزالہ کو روانہ ہو گئے
دیکھتی میں رہ گئی گرتے سفر میں خو گئے
کچھ مہینے بعد میرے باپ کی آئی خبر
قافلہ
آتا ہے لیکن میں نے یہ پائی خبر
خبر کر لے پہن تیری اور ہوئے باپا حلاق
داکوں نے باپ اور بیٹی کو کر ڈالا حلاق
عارضوں کا ملا
خون دور شفقت میں مجھے
پھر چچا نے لے لیا اپنی کفالت میں مجھے
چھوڑ کر اپنا
وطن پھر چل دیئے میرے چچا
اور سمر کند مجھ کو لے کر آ گئے میرے چچا
ہے غزالہ کو پتا
آگے جو گزرا واقعہ
اسکیاں لے کر غزالہ نے سنایا واعیہ
باپ کے ہمراہ تھیں میں اور سفر جنگل میں تھا
ہم تھکے تھے اتنے آہوں کا خلل حلچل میں تھا
اک طرف والد نے میرے خیمہ کروایا نصب
وہ تحجد پڑھ رہے تھے وہ گیا خیمہ نصب
رات کا تھا ایک پہر کو میں نے آہٹ سی سنی
ہاں وہ ایک آواز تھی گھوڑوں کے ٹاپوں کی سنی
کچھ سپاہی چند ہی لمحے بعد اندر آ گئے
باپ کو باندھا مجھے باندھا وہ سر پر آ گئے
میرے والد کو نہ جانے کس طرف وہ لے گئے
کچھ خبر مجھ کو نہیں آگے کی غم وہ دے گئے
میں بندی تھی پھر مجھے گھوڑے پہ بٹھلایا گیا
تیز رفتاری سے اس گھوڑے کو دوڑایا گیا
ایک سپاہی نے کہا ایوان جب آئے نظر
ملکہ بننے والی ہو تم اس محل کی جلد کر
میرے زخموں پر نمک چھڑکا میں روئی پوٹ کر
اپ بھی دروازے سے آئیں چند گنیزیں پے خطر
دل دھڑکتا تھا میرا اندر مجھے لایا گیا
ایک مکہ آ راستہ میں مجھ کو پہنچایا گیا
پھر دعا کو ہاتھ فوراں ہو گئے میرے بلند
روح تیپا جا چکی تھی وہ ہوئے اتنے بلند
تھا مدینہ روح میں پنہا تصور ہو گیا
روزہِ سرکار کی چالی میرا سر ہو گیا
بے قرار ہو کر تبھی سرکار کو آواز دی
میں کنیز ایک آپ کی چوکھٹ کی ہوں پیارے نبی
میرے والد آپ کے عاشق ہیں ان پر مار تھی
ہو گرم شاہِ دوالم خیر ہو بس باپ کی
یا رسول اللہ میری عزت بچانے آئیے
مجھ کو اس ظالم شہنشاہ سے چھڑانے آئیے
شدتِ غم سے غشی پھر مجھ پہ تاری ہو گئی
تھی کنیزیں ساکھ وہ کہنے لگیں یہ سو گئی
دوسری شب کچھ کنیزیں پاس میرے آگئیں
ساتھ ایک صندوق تھا لے کر وہ کپڑے آگئیں
ہو مبارک کیا مقدر ہے نرالہ آپ کا
آج ہے عوجِ سریعہ پر ستارہ آپ کا
شہرِ آفاق تھا جو حسن وہ بلکھا گیا
پاسی اپنے صحیح ایک قدر دا کے آ گیا
حسن کا شہرا سنا ہے جب سے تب سے بے قرار
نیند آنکھوں سے خفا تھی بادشاہ تے بے قرار
رو نہ دھونا چھوڑ کے
خود کو یہ زحمت دیجئے
آپ کو دلہن بنائیں ہم اجازت دیجئے
کہتے کہتے پھر غزالہ عابدیدہ ہو گئی
پھس گئی آواز اس کے حلق میں وہ کھو گئی
جب کنیزوں سے سنی یہ بات بجلی سی گری
کیوں مدینے سے یہاں اب تک نہیں آیا کوئی
اب میرے ایمان کی
بنیاد بھی ہلنے لگی
خرمن نام سجلنے والا تھا اب جلد ہی
روتے روتے ہو گئی بے ہوش میں وحشت ہوئی
ہوش جب آیا تو خود کو دیکھ کے حیرت ہوئی
حب دلہن کی طرح سب نے سجایا تھا مجھے
لاکے ایک پاکیزہ کمرے میں بٹھایا تھا مجھے
چیخ نکلی یا رسول اللہ صحارہ دیجئے
اپنی بیٹی فاطمہؑ کا مجھ کو صدقہ دیجئے
چیخ یہ تحلیل جب میری فضا میں ہو گئی
یہ خبر چاروں طرف قصر جفا میں ہو گئی
بادشاہ کو ایک بچھو نے ہے ڈنگ مارا سنو
وہ تڑپتے ہیں محل میں کال ہے خستا سنو
غصم تھا مولک قسم کا سہر و بچھو کھو گیا
خودنے پر بھی نظر آیا نہیں گم ہو گیا
خالی کمرہ کر تو بولی غیرتیں بھی چھا گئیں
اٹھ کے میں جلدی سے پھر کمرے میں اپنے آ گئیں
شکر کے سجدے کیے پیشانی بوجھل ہو گئی
مل گئی امداد آقا سے وہ اجمل ہو گئی
پھر علاج اس ناخلف کا سب طبیبوں نے کیا
زہر وہ اُترا نہیں سب کچھ حکیموں نے کیا
کچھ مہینے تک علاج اس کا یوں ہی ہوتا رہا
بن گیا ناسور اس کے زخم میں روتا رہا
تو ملی تھی اس کی بد عامالیوں کی تھی سزا
اس کو اللہ نے زنا کاری کی یہ دی تھی سزا
جو پسند آئی اسے اس کو تبھی اٹھوا لیا
قدم القا قا دیا حاکم بنایا عزیز کا
چھے مہینے بعد اس کو قید پھر کروا دیا
وہ ستمگر اور ظالم تھا بڑا عیاش تھا
ان مہینوں میں نشانے سے میں اس کے ہٹ گئی
بدلیاں در تو
علم کی سر سے میرے چھٹ گئی
آخر اشتر محل میں ایران کا آیا طبیب
پادشاہ کے مرض کی ایسی دوا لایا طبیب
تھی دوا اس نے تو پیتے ہی اچمبا ہو گیا
غسل سے حق کر لیا ظالم وہ اچھا ہو گیا
زلزلہ سا آ گیا تھا خاک گیتی میں تبھی
پھر مجھے لایا گیا اجلا پروسی میں تبھی
ہو گئے بے ہوش گر کر سیڑھیوں سے پادشاہ
حسن کی ملکہ کی جانب آ رہے تھے پادشاہ
چھے مہینے ہو گئے تو
مجھ کو سمجھایا گیا
چھے مہینے ہو گئے تو مجھ کو سمجھایا گیا
ایک بہانے سے مجھے اس قید میں لایا گیا
اتنا کہہ کر پھر غزالہ چشم طر رونے لگی
پاہے وہ اپنی بہن کے ڈال کر رونے لگی
قید میں تھی تونوں بہنیں ایک جگہ رہتی تھی وہ
تھی نمازوں کی وہ پابند روزہ بھی رکھتی تھی وہ
رب سے سلطان کی حلاقت کی وہ کرتی تھی دعا
ہو گئی مقبول ایک دن پارگاہِ کبوریا
خواب یہ
دیکھا غزالہ نے ہے ایک لشکر پڑا
آ رہا ہے اس طرف سلکان کو کرنے فنا
دیکھ کر یہ خواب اب کابیر کا کا انتظار
ہو گیا پھر یوں ختم ایک روز اس کا انتظار
ایک لشکر نے چڑھائی کی محل کھر آ گیا
پائی لشکر نے فتح وہ بادشاہ پکڑا گیا
چلتے چلتے جب خبر یہ قید خانے میں گئی
دیکھنے لشکر کو تیزی سے غزالہ چل پڑی
خواب کا منظر تھا اس کے سامنے حیرت ہوئی
تھے سپازالہ اور اس کے باپ بچڑے تھے کبھی
عورتیں سب ہو گئیں آزاد خوش رہنے لگیں
آکے دونوں بہنیں اپنے باپ سے کہنے لگیں
ہم تو سمجھے تھے کہ تم اللہ کو پیارے ہو گئے
حال کیا فرقت میں اے بابا
ہمارے ہو گئے
باپ بولے کا کونے مار کر پھنکا مجھے
باپ بولے کا کونے مار کر پھنکا مجھے
ہو گئے رخصت کسی نے بھی نہیں دیکھا مجھے
ہوش جب آیا بہت دن تک میں جنگل میں رہا
ایک دن یہ خواب میں سلطان والا نے کہا
چھوڑ جنگل اور تو جلدی سے خسنتنیا جا
انتظاری میں وہاں کا
بادشاہ ہے کر وفا
میں گیا تو
بادشاہ نے سب مجھے سمجھا دیا
دیکھ لشکر حال سب اس شاہ کا بطلا دیا
لے کے لشکر آ گیا رب کا بڑا احسان ہے
تیفتح مجھ کو خدا نے قید میں سلطان ہے
شاہ کو پھر ایک بڑے میدان میں لایا گیا
ہاتھیوں کے
پاؤں سے ظالم تبھی باندھا گیا
ہاتھیوں کو اس بڑے میدان میں توڑا دیا
بادشاہ کو کیفروں
کردار تک پہنچا دیا
رہ گئے پرزے بکھر کر شاہ کے میدان میں
کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا اس کی جان میں
تو زمینے اس نے چھینی تھی وہ لوٹائی گئیں
پھر کنیزیں محل کی میدان میں لائی گئیں
تھی سزا کی مستحق جو تھی سزا ارمان سے
تخت پر ایک نیک انسان کو بٹھایا شان سے
کام پورا ہو گیا پر دور تھا ان سے وطن
لے کے اپنی بیٹیوں کو پا گئے اپنے وطن
ظلم کی انوار ٹہنی پھولتی پھلتی نہیں
ناؤ کا غز کی تو پانی میں کبھی چلتی نہیں