موسیقی
کیوں بیٹھے سوچتا میں ہے مجھ میں دکت کافی
خدا سے کون سے گناہ کی اپنے مانگو مافی
خود سے ہی ہوں خفا میں امیدیں توڑ ڈالی
کیا جی کر فائدہ جب ہر گھڑی ہے خوف کھالی
کہ اب اور کونسا ہے امتحان باقی
میرا کونسا سگاہاں میرے دل کو آگے توڑ دے گا
پھر مجھ کو ہی وہ سارے واقعے کا دوش دے کے
گلتیاں گینا کے مجھ کو راستے میں چھوڑ دے گا
اے خدا ماف کر میں سجدے میں بھی سوچتا
کہ تُو بھی نہیں یہ جانتا کہ دل پر میرے بوجھ کیسا
لیکن میں کیسے اپنے آپ سے ہاں جھوٹ بولو
جس سے باتو گم ہے میرے پاس میں نہیں دوست ایسا
کیوں یہ دنیا مجھے نیچے ہے گیرانا چاہتی
جیتنے سے پہلے ہی یہ کیوں مجھے ہرانا چاہتی
بس اپنی اور مجھ میں لڑنے کی ہے ہمت تھا
میں کامیابی دیکھو اتنا حوصلہ رہانہ باقی
باقی جو بچے میرے فرض وہ ادا کروں گا
ہے جتنے لوگ میرے ان کو نہ خفا کروں گا
تو جتنا مرضی مجھ سے چھیننے کی کوشش کر میں
ساکھی بن کر تیرا ایک جام اور ادا کروں گا
ہے دستر کھان میرا سجا میز بان سے
ہے جتنے ساتھ بیٹے میرے پاس بان ہے
اور جتنے دور مجھ سے آج میں نے کر دیئے وہ آستین کے ساب
چھپے تھے جو گرے بان میں
یہ دنیا کا ہے سچ جو صدیوں سے چلا ہوا
جس نے کیا بھلا کیوں اس کا نہ بھلا ہوا
لیکن یہ جانتا میں کرمہ سب کا لوٹتا ہے
لوٹتا نہیں ہے پر وہ وقت گزرا ہوا
بس ایک امید کہ سب ٹھیک ہوگا آخر میں
دیکھوں میں سپنے ہاں ہوں سپنوں کا موسافر میں
پر اس جہان سے اب اور کچھ نہیں چاہیے
گلتیاں ہے کی جو میں نے خدا مجھ کو معافی دے
یہ امتحان کیسا ہر پل میری جان لیتا
دیکھنے سے پہلے سپنا کاش سچ کو جان لیتا
کہ کاتے اتنے میرے راستے میں بچھے ہوں گے
لیکن میں بھی دھیٹ ہاں میں ہار کیسے مان لیتا
گم سے کہ ہستا چہرہ دنیا کو دکھاؤں میں
کب تک حقیقت اپنے آپ سے چھپاؤں میں
سب کچھ پانے کو ہاں میں سب کچھ ہی تو کھو چکا ہوں
حق پر ہو کر بھی خود کو رسوا کیوں کراؤں میں
دل کو تلاش جس کی دھونڈی نہ پاؤں میں
پتہ نہیں کیا وجہ ہے روز مرنا چاہو میں
سب کچھ پانے کو ہاں میں سب کچھ ہی تو کھو چکا ہوں
حق پر ہو کر بھی خود کو رسوا کیوں کراؤں میں