اس بیڑ میں
اندر کی آواز کو میں
ڈوڑ نہ سکوں
کچھ خواہشیں
خود میں ہی قید ہیں جو وہ ڈوڑ نہ سکوں
تو مجھ کو رک جانے دے
ہم جانے دے
ذرا سیدھے رک جانے دے
ہم جانے دے
محسوسین پر
راستہ بھی کبھی یہ ہو
ختم نہیں
کیا پا لیا
حاصل ہوا کچھ کبھی یہ ہے خبر نہیں
مجھ کو رک جانے دے
ہم جانے دے ذرا سیدھے رک جانے دے
ہم جانے دے