ہائے صغرؑ ہائے اکبر
روزِ آشور جورن میں خط صغرؑ آیا
روزِ آشور جورن میں خط صغرؑ آیا
پھر کے اس کا تو بہت شاہ کو رونا آیا
روزِ آشور جورن میں خط صغرؑ آیا
روزِ آشور جورن میں خط صغرؑ آیا
کورنازی صغرؑ کاہیا
لیکن اس کا تو گئے لاش آئے اکبرؑ پہ حُسینؑ
بولے اے لالی کے بہنہ کا سندسہ آیا
لیکن اس کا تو گئے لاش آئے أکبرؑ پہ حسینؑ
لیکن اس کا تو گئے لاش آئے اکبرؑ پہ حسینؑ
بولے اے لالی کے بہنہ کا سندسہ آیا
روڈ یا شون جو رن میں قتل صغر آیا
لاش پامال ہوئی ابن رسن کی
لاش پامال ہوئی ابن رسن کی
جس دنبوں پہنچے مختل میں کمر
تھامے ہوئے شامل
در پہ خیمے کے
کھڑے رہتے تھے
سب اہلِ غرم
بولی زینبؑ
کے کہیں
بولی زینبؑ
کے کہیں
بھائی کا نکر جائے ندم
لاش ایک رات کے بیائے کی
جو آئی رن میں
جو آئی رن میں
لاش اک رات کے بیاہے کی جو آئی رن میں
گویا پیغامِ اجل کا پر فروا آیا
ایک روزِ آشور جو رن میں ختم صغرا آیا
ایک روزِ آشور جو رن میں ختم صغرا آیا
بڑھ کے موجوں نے قدم چوم لیے غازی کے
بڑھ کے موجوں نے قدم چوم لیے غازی کے
بڑھ کے موجوں نے قدم چوم لیے غازی کے
مہر پہ جس گھڑی سخائے سکینہ آیا
ایک روزِ آشور جو رن میں ختم صغرا آیا
جب سنا کھا کے گرا گو
گوڑے سے عیسیٰ کا پیسر
تھی مدینے کی طرف شاہ کے
جو رن میں ختم صغرا آیا
اکبر کی نظر
یادِ صغرہ میں تھا
یادِ صغرہ میں تھا
تھامے ہوئے
ہاتھوں سے جگر
نام ہوتوں پہ تھا صغرہ کا علی اکبر کے
نام ہوتوں پہ تھا صغرہ کا علی اکبر کے
نام ہوتوں پہ تھا صغرہ کا علی اکبر کے
سات برچی کے اُلج کر جو کلے جا آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
شہر چلے جانے پہ
مختل تو سکینہ نے کہا
شہر چلے جانے پہ
مختل تو سکینہ نے کہا
لوٹ کر رن سے نہ کوئی میرے بابا آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
برسر شام غریبہ یہ پکاری زینب
برسر شام غریبہ یہ پکاری زینب
راس مجھ کو نام محرم کا مہینہ آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
کوئی سجاد کو پہچان نہ پایا احسن
گھر منی رب نے جو شبیر کا بیٹا آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
برسر شام غریبہ یہ پکاری زینب
برسر شام غریبہ یہ پکاری زینب
کوئی سجاد کو پہچان نہ پایا احسن گھر منی رب نے جو شبیر کا بیٹا آیا
اکبر اے آشور جو رن میں خطب صغرہ آیا
بھائی اکبر