کیوں بناتی ہو تم ریت کے یہ محل جن کو ایک روز خود ہی مٹاؤ گی تم
آج کہتی ہو اس دل جلے سے پیار ہے تمہیں کل میرا نام تک بھول جاؤ گی تم
تم نے کہا تھا ہر شام تیرا حال پوچھیں گے
تم بدل گئے ہو یا تمہارے شہر میں شام نہیں ہوتی
میں شکر گزاروں دوزار چوبیس کا
مجھے بہت رنگ برنگی چہرے دکھائے ہو سالوں
سمجھانا
نہ کر بھی اپنی حد میں رہ اے دل وہ بڑے لوگ ہیں اپنی مربی سے بات کریں گے
استاد مجھے حکم ہوا کچھ اور مانگ اس کے سوا
میں دست طلب سے اٹھ گیا مجھے طلب نہیں کسی اور
کچھ یادیں یاد رکھنا کچھ باتیں یاد رکھنا
زندگی میں ہم تم ساتھ نہیں رہیں گے لیکن ہم کبھی ملے تھے
یہ بات زندگی بھر یاد رکھنا
اب تو کامیابی عزت بن گئی ہے لالا
اس پار مقابلہ آسٹین کے سامپوں سے ہے
سمجھانا
دوزار چوبیس میں جو ہوا سوا میرے بھائی
اب دوزار پچیس میں نئے چپٹر کا سرواد ہوگا
اور سنا ہے گندی نالی کے کیرے بھی ہمارے خلاف کرنے لگے ہیں
میری جان اس بار دشمنوں سے پہلے دوگلوں کا حساب ہوگا
اب اس نئے سال میں ایک کام تو کرنا ہے مجھے
کہ اپنے سکون کے ساتھ کوئی کمپرومائز نہیں کرنا ہے
تو نئے سال کے لیے سوچا ہے کہ
جو گلتیاں ہو گئی انہیں ریپیٹ نہیں کرنا ہے
جنہیں یقین نہیں مجھ پر
انہیں کچھ بھی ایکسپلین نہیں کرنا ہے
جو اپنا ہوتا ہے وہ ساتھ نہیں چھوڑتا
کیا اتنے بورے تھے ہم
کہ تم کو نئے سال پر بھی یاد نہیں آئے
اگر میرے دوہزار پچیس اچھا نہیں بیٹھا نا
تو میں ہیپی نئیئر بولنے بالوں پر کیس کروا دوں گا
مجھے لگتا ہے سب سے زیادہ تھنڈ میرے ٹکٹوک اکاؤنٹ کو لگتی ہے
یار یہ آئے دن فریض ہوا رہتا ہے