اے
چانا تو یہی ہے
آگے میری تقدیر
طمئنہ تو یہی ہے
طمئنہ تو یہی ہے
دیکھیں قسم سے میں آپ کو والمال ملک کہتا ہوں
جب آپ جا رہے ہو کہنا مدینہ بنورا
جون جون مدینہ شریف قریب آتا ہے
واللہ بللہ تلہ للہ
ہوایں بتا دیتی ہیں
کہ مدینہ آنے والا ہے
یقین جانے واللہ بللہ بات کر رہا ہوں
کہ ہواں کے اندر کسی خوشبو
ہواں میں کسی ایسا سوز و گداز
جو اور کہیں نہیں ہے
جون جون مدینہ قریب آتا ہے
اندر سے ایسا ہوتا ہے کہ میں کہیں اور ہے
یہ جگہ ہی کوئی اور ہے
وہ محقی کچھ اور ہے
یہ ارادہ ٹھیک ہے کہاں جانا ہے مدینہ والے کے قریب
ضرور ہے حضور خود
سمجھو ان چیزوں کب جاؤ گیا حضور کے پاس
مدینہ تو
کہتے ہیں کہ
دل ہے وہ سمجھ رہے ہیں ایک تو یہ آنکھیں
ان آنکھوں کے لیے یہ نظرہ یہی ہے لیکن ایک نظر دوسری ہوتی ہے
تو اس دوسری نظر کی بات کرتے ہیں تو
پھر وہ جملہ استفانیہ نہیں بنتا ہے
یہ جملہ خبریہ بن جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ
نظرہ تو یہی ہے
نظرہ تو یہی ہے
شاہروکھ ان کے والد صاحب کا
مدینہ منورہ میں انتقار کیا
اور وہ کئی عرصے سے وہی رہ رہے تھے اور وہ آتے ہی نہیں تھے
وہ کہتے ہیں پتہ نہیں میں بھی آجاؤں کو کئی ایسا نہ ہو
کہ مجھے موت مانگا وہ نہیں آتا آتے ہی نہیں تھے وہی رہتے
تھے اور بس مدینہ شیف گئے تو بقی کی نیت دیکھ رہے تھے تو وہی رہے
اور ما شاء اللہ وہی ہی کے قدموں میں پہنچ گئے
اللہ ان کی بے حصہ
بحشی شرمہ اور اللہ ان کے درجات کو بلند حرم کرے گا اب مرنے والی
تو بہت مرتے ہیں لیکن جب کوئی ایسا مرتا ہے مدینہ شیف جاننے میں وہی
مرتبہ دلچسپ بڑا خوش ہوتا ہے اگرچہ ایک غم ہوتا ہے اپنے سے
مشننے کا لیکن ایک رشت بھی آتا ہے کہ یار کریں بھرک لیں میرے باپ کو
یار میرا باپ جائے مدینہ میں مارے میرے باپ کی قبر جو ہے وہ بقی میں
ہے
یہ اتنا بڑا رتبہ ہے تو میں ان سے تعذیب بھی کرتا ہوں اور میں ان کو
ان کے مقدر میں برک برک بیش کرتا ہوں یقین کرتا ہوں برک برک بیش
کرتا ہوں کہ اللہ نے ان کے والی صاحب کو وہ جگہ کا فرمائی کہ
ہم میں سے جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مارے تو مدینہ میں مر جائے
جو مدینہ میں مرے گا میں مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم اس کی شفاعت کروں
اور حضورصلى الله عليه وسلم فرمات نے سب سے پہلے اپنی قبر سے میں مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم اٹھو گا
پھر میرے ساتھ صدیق و عمر ہوگے اور پھر اہلِ بقی میں
تو کوئی سمجھنا کوئی کم ہے کم شکل کوئی سعادت ہے
کہ قیامت کی دن حضورصلى الله عليه وسلم کے سعادی گھنٹی کریں
کیونکہ کم سعادت ہے
تو اتنی بڑی سعادت ملنے پر میں ان کے
بچوں سے میں اظہار خوشی بھی شکر کروں
دیکھیں مرنہ سب کو ہے لیکن کئی مواتیں ایسی ہوتی ہیں کہ رشکہ کھائے
تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جوانِ رحمت کو جگہ تر فرمائے
اللہ تعالیٰ ان کے گھر والوں کو صبر دے
و صبر پر عجرِ عظیم انہیں نصیب فرمائے
تو دیکھو شاعر کہتا ہے
کیا کہتا ہے
گمِ حجرِ زلگائی کے گم کا اظہار کرنے کے لیے کیا کروں رو
اب
بچے ہی نہیں رخصت کے بعد عشق بچے ہوتو نظر ہو
شیر سنیئے رخصت کے بعد اتنا روئے گئے
کہ اب عشق بچے ہونا تو نظر ہو
اے سرزمینِ تحبہ تیرا قرض دار ہو
کہتے ہیں ایک وقت آگیا رو رو کے آنکھیں بھی خوش خوش