ایسا
کہتی ہے یہی حدیث ہے کہتا قرآن ہے
عبرت کے
واسطے یہ نبی کا بیان ہے جو رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
کہتی یہی حدیث ہے کہتا قرآن ہے عبرت کے واسطے یہ نبی کا بیان ہے
جو رشتے
نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
رمضان کے مہنے کا ہے یہ فیض واقعہ
سن کر اسے ہو جاؤ گے بے حد ہی گم زدا
ایک گاؤں میں رہتے بڑے نادار مسلمان
رحمت تھا ان کا نام ہے ان کا ہی یہ بیان
عزت بہت تھی گاؤں میں اعلیٰ مقام تھے
چھوٹے بڑے سبھی انہیں کرتے سلام تھے
کھیتی کسانی کر کے وہ کرتے گزر بسر
اللہ نے کیے تھے اطاع ان کو تو دو پسر
ان
کا ہے
بیٹا بڑا سلیم تھا شادی رچائی تھی
دلہن شبانہ نام کی ایک گھر میں آئی تھی
آئی شبانہ گھر میں تو گھر تھا مہت گیا
رحمت سسر تھے بن گئے چہرا چمک گیا
بیٹا سلیم ہو گیا
عاشق بہو کا تھا
رہتا بہو کی کہنے میں کم ہی تھا بولتا پیسہ جو کماتا تھا
وہ لیتی تھی سب بہو منظری دیکھ کھولتا رحمت کا تھا لہو
پھر بھی نہ کچھ بھی کہتے سب ہس کے ٹالتے
گھر کی خوشی کے واسطے کھالی نہ بیٹھتے
باتا انہی کی کمائی پر جو رشت نباتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
چھوٹا پسر آوارا تھا کرتا تھا مستیاں
سوتا بہت تھا مفت میں کھاتا تھا روٹیاں
رحمت ہمیشہ منہ کو سونے پہ ڈاٹتے اس کے لیے خدا سے وہ دعائیں مانگتے
لڑکی تھی ایک منہ سے کرتی وہ پیار تھی
منہ کے لیے جان بھی اس کی نصار تھی
کھاز گل میں اس کے رب کا خوف تھا
شبنم دیا کرتی تھی اسے نیک مشورہ
تیری باتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
منہ وہ کنچے کھیلتا کرتا نہ کام تھا
گھر کی نہ کوئی پکرتی دن بھر ہی گھومتا
بھابی دیا کرتی تھی بہت اس کو لانتے
بھائی سلیم اس سے کیا کرتا نفرتیں
ایک بار کی ہے بات تھا سوخا پڑا وہاں رحمت کا دل دکھی ہوا آسو ہوا روا
لے کر کے کرچا کھیت میں بوئی تھی جو پسل برسات کے بغیر ان پہ جل گئی پسل
تیار پسل جب ہوئی منڈی میں تھی بکی اس بار پسل کی انہیں قیمت تھی کم ملی
رحمت پسل جو بیچ کے آئے بزار سے
الجن تھی کیسے پیسے چکائیں اودھار کے
سو رشتے نباتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
سو رشتے نباتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
کچھ انہیں اب تو مل گیا رحمت کو اس نے روک لیا اور یہی کہا
میں نے سنا ہے آج تمہاری بکی پسل تم
کر رہے مہینوں سے مجھ سے تو ہی آج کل
راشن کے چھ ہزار روپے ہیں بولائیے گھر جانا چانچا بعد میں قرضہ چکائیے
رحمت نے چھ ہزار اتے کر دیئے ادا آگے چلا تو شخص انہیں دوسرا ملا
اس نے کہا کہ آج بکی آپ کی پسل یہ التی جاہے معاملہ میرا بکی جہل
سو رشتے نباتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
اس کو بھی دس ہزار دیئے گھر کو چل پڑے
پہنچے جو گھر تو تھوڑے سے ہی تھے روپے بچے
بیٹے کی بہو پانی کلائی گلاس تھی اب بک گئی پسل ہے اسے بھی تو آس تھی
جب یہ سنا بہو نے تو گصہ بہت
ہوئی!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
جب یہ سنا بہو نے تو گصہ بہت ہوئی!
جب یہ سنا بہو نے تو گصہ بہت ہوئی!
رحمت نے کہا بیٹی تو ہوتی ہے کیوں دکھی
قرضا سبھی کا دینا یہ مجبوری تھی میری
جانے خبر یہ کیسے سبھی کے لیے لگی
سندھی میں فصل آج ہماری ہے بک گئی
جس کا بھی ہم پہ قرضا تھا رستے میں مل گیا
اب کیسے ہم رمضان کا خرچہ اٹھائیں گے
اب کس طرح سے عید ہم اپنی منائیں گے
اب کس طرح سے عید ہم اپنی منائیں گے
اب کس طرح سے عید ہم اپنی منائیں گے
اب کس طرح سے عید ہم اپنی منائیں گے
بولی بہو نہ اس طرح سے کام چلے گا
سلفہ کا ایک پیسہ کسی کو نہ ملے گا
شوہر میرے کماتے ہیں دیور ہے نکمہ
سوتا ہے دو پہر تلک گھر میں پڑا منہ
یہ کہہ کے بہو کمرے میں اپنے چلی گئی آنکھوں میں عشق آ
گئے رحمت ہوئے دکھی آیا تلیم شام کو تو بولی شوہر میرے کماتے
ہیں دیور ہے نکمہ سوتا ہے دو پہر تلک گھر میں پڑا منہ
یہ
کہہ رہنا ہر گزن ناز نکرے میں ان کے اٹھاؤں گی
منہ نے جب سنا تو یہ والد سے تھا کہا میرا ہے سب کسور کسی کی نہیں خطا
میں دیتا جو کام آ کے تو بھابی نہیں
لڑتی اپنے سے دور اس طرح سے وہ نہیں کرتی
اسے کر کے آنگا
ہوتے ہی صبح کام پہ وہ تو چلا گیا
گھر ایک بن رہا تھا وہاں کام تھا ملا
دن بھر کیا تھا اس نے وہاں اپنے کام کو
اس تاری لے کے آیا ساتھ میں وہ شام کو
جو رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
سکھیں سکھیں سب مجبور تھے بڑے
سہری کا وقت آیا تو رحمت تھے اب اٹھے
جا کے کچن میں کھانے کو کچھ ڈونڈنے لگے
سہری سلیم نے جو اپنے باپ کو بھیجی
بیت کی سسر پہ بہو ستم جو رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
کھوڑے سے گڑھ چنا ملے رحمت نے کھا لیے
پی کر کے پانی رب کی عبادت میں لگ گئے
منظر یہ سارا منہ پڑا دیکھ رہا تھا
آنکھوں سے اڑی نید تھی بے حد تھا گم زدا
سوچا تھا اس نے بھائی سے کل بات کروں گا
بھائی کی حرکتوں کو میں بھائی سے کہوں گا
بھائی سے اس نے بھائی کی جو کی شکایتیں
ڈاٹا تھا اس کو بھائی نے بھیجی تھی لانتیں
اس نے کہا تھا کام تو کرتا نہیں ہے کیوں
حالات اپنے خود تو بدلتا نہیں ہے کیوں
منا نے یہ باتیں سنی تو بجلی سے گری وہ چل پڑا وہاں سے تو شب نمپ سے ملی
جو رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
شب نم نے دیکھا منا تو آواز لگائی چھت پہ کھڑی تھی اپنی وہ اب دوڑتی آئی
آتے ہی کہا منا سے کیا حال بنایا
لگتا ہے جیسے تم نے کھانا نہیں کھایا
شب نم سے کہا منا نے بے حد ہو پریشان میں اپنی زندگی پہ بے حد ہو پشیما
شب نم نے کہا گم نہ کرو کام کچھ کرو حالات ہیں برے تو نہیں ان سے تم ڈرو
منا کو وہ ٹھہرا کے گئی گھر کو دوڑتی
لے کر کے آئی ہاتھ میں روپیوں کی پوٹلی
شب نم نے کھا کہا لے جاؤ ان سے کام کرو مانو مشورہ
جو رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
منا نے کہا میں نہیں لوں گا یہ پوٹلی
جا کر میں کسی سیٹھ کی کر لوں گا نوکری
شب نم نے کہا منا تمہیں کرتی پیار ہوں
لے لو کشی سے دے رہی تم کو ادھار ہوں
انکار تم کرو نہیں اللہ کا نام لو تم دل لگا کے کرنا یہاں اپنے کام کو
دوڑتا چلا
اللہ سے من ہی من میں دعا مانگتا چلا
آگے چلا تو اس کے لیے دوست ایک ملا اس کو روپی دکھائے کیا اس سے مشورہ
اچھی نبھائی یاری رکھی کوئی نہ کسر جو
رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
لہتا سلیم بیوی کے کہنے میں ہر گھڑی
اس کو نہ اپنے باپ کی کوئی بھی فکر کی
رحمت کی ایک دن ہوئی طبیعت خراب کی
بیٹے سے دوا کے لیے پیسوں کی مانگ کی
جو بھی تھا اس کے دل میں مٹا سارا ہی تھا گم
پھر بعد میں پوچھا کی کہاں تے یہ لایا ہے
منہ نے کہا روپیا یہ میں نے کمایا ہے
جو رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
جو رشتے نبھاتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
دو دن بچے تھے عید میں تنخواہ تھی نہ
ملی رحمت کا بیٹا اور بہو تھی بڑی دکھی
منہ کو لگی ہو نے کمائی تھی خوب ہی شبنم
کی بھی لوٹائی تھی پیسوں کی پوٹے لی
رحمت نے سپنے بچوں کے اب تو سجائے تھے
بازار سے وہ عید کا سامان لائے تھے
کپڑے سلیم اور بہو کو تھے جب دیئے دونوں بہو وہ بیٹے کے آسو نکل پڑے
کرنی پہ اپنی دونوں کو بے حد تھی ندامت
والد کا دل بڑا ہے جو کی تھی یہ انعیت
اب ہونے لگا فیض سبی کا نباہ تھا شبنم کا منہ سنگ ہوا اب نکاہ تھا
جو رشتے نباتے ہیں خوشیاں وہی پاتے ہیں
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật