Lời đăng bởi: 86_15635588878_1671185229650
غزل پیش کروں
استاد قمر جلال بیگی
نہ جاؤ گھر
ابھی تو رات ہے
نہ جاؤ گھر
ابھی تو رات ہے
بادل بھی کالے ہیں
نہ جاؤ گھر
ابھی تو رات ہے
بادل بھی کالے ہیں
نہ جاؤ گھر
ابھی تو رات ہے
ابھی تو رات ہے بادل بھی کالے ہیں
عزاں سمجھے ہو تم جس کو کسی بے کس کے نہ لے
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کالے ہیں
عزاں سمجھے ہو تم جس کو کسی بے کس کے نہ لے
نہ جاؤ گھر
بہاروں کی خبر سن کر قفس میں رو تو دیتا ہوں
بہاروں کی خبر سن کر قفس میں رو تو دیتا ہوں
کسی سے یہ نہیں کہتا میرے پر کاٹ ڈالے ہیں
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کالے ہیں
ہزاروں وعدہ شب
اس نے اس صورت سے
ٹالے ہیں
ہزاروں وعدہ شب
اس نے اس صورت سے
ٹالے ہیں
کبھی مہندی لگائی ہے
کبھی کیسو سنبھالے ہیں
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے
بادل بھی کالے ہیں
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے
مریج سوزے بیٹھیں نیجا ہے
اے چار اگر کب بچنے والے ہیں
مریضے سوزے غم اے چار اگر کب بچنے والے ہیں
مریضے سوزے غم اے چار اگر کب بچنے والے ہیں
کہ ہر آنسو کی رنگت کہہ رہی ہے دل میں چھالے ہیں
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کالے
مریضے سوزے غم اے چار اگر کب بچنے والے ہیں
مریضے سوزے غم اے چار اگر کب بچنے والے ہیں
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کالے ہیں
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہے مہوے آرائش
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہے مہوے آرائش
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہے مہبہ آئیش
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہے مہبہ آئیش
مریضوں کا دم آنکھوں
مہو میں وہ ہیں مہوے آرائش
یہاں پھوٹوں کی لالی ہے یہاں جانوں کے لالے ہیں
وہاں پھوٹوں کی لالی ہے یہاں جانوں کے لالے ہیں
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کانے ہیں
قمر تسبیح پڑھتے جا رہے ہیں سوئے بطخانہ
قمر تسبیح پڑھتے جا رہے ہیں سوئے بطخانہ
قمر تسبیح پڑھتے جا رہے ہیں سوئے بطخانہ
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے بڑے اللہ حوالے ہیں
نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے بادل بھی کانے ہیں
عزا سمجھے ہو تم جس کو کسی بے کس کے نام
جانے ہیں نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے