مجھ سے ملیے مجھ کو کہتا ہے زمانہ لا جواب
مجھ سے ملیے مجھ کو کہتا ہے زمانہ لا جواب
اور ابتدا سے انتہا تک مجھ پہ رہتا ہے شباب
تو میرے چہرے پر پڑی رہتی ہے شیشے کی نقاب
اور ساری دنیا جانتی ہے نام ہے میرا شراب
میرے کتروں میں سمندر کی روانی بند ہے
اور میں وہ ہوں موٹھی میں جس کی نوجوانی بند ہے
آج بھی مشہور ہوں میں کل بھی میں مشہور تھی
اور فرق ہے پر نور اب ہوں پہلے میں بے نور تھی
کہ وائزوں کے پاس تھی رندوں سے کوسوں دور تھی
اور آج میں صحبہ ہوں لیکن کل تلک انگور تھی
یعنی کل میں باغ میں تھی آج میں خانے میں ہوں
اور پہلے پھل تھی پھول بن گئے اب میں پیمانے میں ہوں
لا کے جنہ سے زمین پر حق نے چھوڑا ہے مجھے
اور کھلونے کی طرح دنیا نے توڑا ہے مجھے
تو گل کے ٹکڑے ہو گئے ایسا جھنجھوڑا ہے مجھے
اور آگ پر رہ کر زمانے نے نچھوڑا ہے مجھے
تو ختم آخر کار میری زندگانی ہو گئی
اور رفتہ رفتہ گھل کے میں رنگین پانی ہو گئی
جب میں پانی بن گئی تو ہو گئی بوتل میں بند
اور قید میں شیشے کی آ کر ہو گیا رتبہ بلند
تو میری صورت میری سیرت آئی ہر دل کو پسند
اور بڑھ گئی توقیر میری مل گئی عزت دو چند
کہ یہ نہ پوچھو کہ اس حالت میں کیا کیا مل گیا
اور مٹ گئی ہستی مگر مستی کا دریاں مل گیا
پرند کی نظروں میں میری شکل ہے سب سے ہسی
اور جس قدر ہے خوبیاں مجھ میں کسی میں بھی نہیں
تو مس سے جلتی ہے زمانے کی ہر لڑ نازنی
اور شاہ زادے تک میرے در پر جھکاتے ہیں جبھی
تو اپنی حد سے اور کچھ آگے جو بڑھ جاتی ہوں میں
اور بادشاہوں کے سروں پہ جا کے چڑ جاتی ہوں میں
جس نے میرا ہاتھ تھاما انقلابی ہو گیا
اور سرخ آنکھیں ہو گئی چہرہ گلابی ہو گیا
سر سے لے کر پاہوں تک رنگ آفتا بھی ہو گیا
اور جس نے چوما مجھ کو نام اس کا شرابی ہو گیا
تو جو برا مجھ کو کہے اے شمس اس کی بھول ہے
اور میری ہستی کیا ہے جنت کا گلابی بھول ہے