آیا نہ ہوگا اس طرح حسن و شباب ریت پر
گلشن فاطمہ کے تھے سارے گلاب ریت پر
جتنے سوال عشق نے آلِ رسول سے کیے
ایک کے بعد ایک دیے سارے جواب ریت پر
عشق میں کیا بچائیے عشق میں کیا لٹائیے
آلِ رسول نے لکھ دیا سارا نساب ریت پر
جن کے سجدوں سے منور ہے جبینِ آفتاد
میرے حرفوں کی عبادت ان خدا والوں کے نام
میری شہرت کا لہو نظرِ شہدانِ وفا
میری شہرت کا لہو نظرِ شہدانِ وفا
میرے جذبوں کی عقیدت کربلا والوں کے نام
میرے حسین تجھے سلام
میرے حسین تجھے سلام
میرے حسین تجھے سلام
میرے حسین تجھے سلام
السلام یا حسین
جو کہ نورِ نبی بن کررار ہے
خوبصورت غلیشہِ ابرار
جن تینوں جوانوں کے سیدار ہیں
اس حسین ابن گیدرؑ پہلا کو سلام
میرے حسین تجھے سلام
میرے حسین تجھے سلام
شاعر نے کیا خوب کہا
شاعر نے کیا خوب کہا
تیرے شہر سے جاتے ہیں
دے ہم کو دعائیں
نانا
دے ہم کو دعائیں
کیوں؟
عباد کریں گے ہم
اب کربلا نانا
تیرا دین ہے مشکل میں نانا
میں کیسے رہوں گھر میں
تفلی میں کوئی وعدہ تھا
تجھ سے کیا نانا
اور اممٰ کی لہت چھوٹی
روزہ بھی تیرا چھوٹا
اُس وقت گلجے پر فنجر سا لگا نانا
اُس وقت گلجے پر فنجر سا لگا نانا
اُس وقت گلجے پر فنجر سا لگا نانا
جن کو دھوکے سکو پہ بھلایا گیا
جن کو بیٹے بٹھائے ستایا گیا
جن کی بچوں کو پیاسا رولایا گیا
جن کی گردن پہ کنجے چلایا گیا
اس حسین ابن گیدر پہ لاکھوں سنا
میرے حسین تجھے سنا
پھر بنی اصد کا قبیلہ بھی آ گیا
بنی اصد کا قبیلہ بھی آ گیا
امام حسین نے ان سے پوچھا یہ ہے کون سی جگہ
بولے بنی اصد کہ نام ہے اس کا کربلا
مولا نے ان سے رو کے وسیعت میں
یہاں بولے بنی اصد کہ نام ہے اس کا کربلا
یہ کہا کچھ امتحان ہم پہ کڑے ہوں گے یہاں
دس دن کے بعد لاشے پڑے ہوں گے یہاں
کچھ امتحان ہم پہ کڑے ہوں گے یہاں
دس دن کے بعد لاشے پڑے ہوں گے یہاں
السلام یا حسین
جن کا جنت سے جوڑا منگوایا گیا
جن کو دوش نبی پر بٹھایا گیا
جن کی بھائی کو زندہ میں بہترین
اگر پیلا گیا جن کو تیروں سے چننی کرا گیا
اس حسین ابن عیدر پیلا کو سلام میرے حسین
تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام
اصر کو تن سے سر میرا ہوگا جدا
میری حرمت کریں گے نہ اہل سکر
دشمنی میں وہ حد سے گزر جائیں گے
گھوڑے گھوڑائیں گے وہ میری لاش پر
میرا لاشاں بچا لینا میری مرکت بنا لینا
پھر اصد کے قبیلوں کے بچوں سے بھی
اس طرح میرا مولا مفاتب ہوا
اپنی مٹھی میں مٹی اٹھا کر
تم بھی ہو سکے تو میری لاش پر ڈالنا
میری ماں سے دعا لینا میری مرکت بنا دینا
دیکھنا کہ تم دیکھنا تم
کہ کچھ وقت گزرے گا جب
اور روزے ہمارے بنیں گے یہاں
نام تو ہے اس جگہ کا کربو بلا
کل اسے سب پکاریں گے رشک جنا
تم بھی جنت کو پا لینا
میری مرکت بنا لینا
ارے میں کہاں جاؤں گا بے قصو بے وطن
سب کہیں گے مجھے شاہ تشنا دہن
رن میں تیروں کا ہوگا میرا بہرہن
خاکے کربو بلا ہوگی میرا کفن
سب کو خاکے شفا دینا میری مرکت بنا دینا
اب بھی آشور کو روزہ شہ پر
روزہ شہ پر آتا ہے سب کبھی نہ اصد کا نظر
شاہدین کی وسیعہ تو نے یاد ہے
اب بھی ماجد یہ کہتے ہیں وہ نوحہ گر
شاہ کا لاشہ اٹھا لینا میری مرکت بنا لینا
شاہ کا لاشہ اٹھا لینا میری مرکت بنا لینا
اسلام یا حسین
اسلام یا حسین
جن کی ماں سیدہ
تھا یہ بات آہیرا
بٹتی ہیں نعمتیں ان کے در سے صدا
ایسی گود سے سیکھی تھی جس نے وفا
اس حسین ابن حیدر پہ لا کھو سنا
میرے حسین تجھے سنا
میرے حسین تجھے سنا
جب حضرت علی
اکبر
جب حضرت علی اکبر کا سر نیزے پہ بلان تھا
جب حضرت علی اکبر کا سر نیزے پہ بلان تھا
تو عورتیں شام کی ایک عجیب دعا کر رہی تھیں
تو مقتہ سنیے اس کلام کا
کس طرح رہان ہو
اس گفتگو کا اب بیان
کس طرح رہان ہو
اس گفتگو کا اب بیان
کہ عورتیں جب شام کی کہتی تھی لے کر ہج کیا
جس جوان کا نوکے لیزہ پر ہوا ہے سر آیا
اس جوان سے پہلے ہج کیا
اس جوان سے پہلے یا رب مر گئی ہو اس کی ماں
اس جوان سے پہلے یا رب مر گئی ہو اس کی ماں
تجھے سلام
السلام یا حسین
السلام یا حسین
السلام یا حسین
جن کی پاکی کی خود پاکے آیت دلی
جن کی خاطر ہوا تھا وہ سجدہ طبی
جن کی دشتہ
دے بارے میں جہاں میں تلتے ہیں
جن کی پاکی کی خورا ****
، اس حسیندر منحدر فیلا کو سلام
میرے حسیندر مجانوں تجھے سلام
ملتا نہیں ہے کوئی تلقائی کا زیادہ مطمئن کو
زینب نے اس طرح اچھا گیا protagonists
خاتون جنگ کر نہیں سکتی تھی اس لیے خطبوں کی ظلمکار سے اجاڑا یزید کو
خطبوں کی ظلمکار سے مارا یزید کو
وہ خطبہ دیا کہ یزید کے دربار کی بنیادوں کو خوکلا کر دیا
وہ خطبہ دیا کہ یزید کے دربار کی بنیادوں کو خوکلا کر دیا
تجھے سلام میرے حسین
تجھے سلام اسلام یا حسین
جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا
اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
سب امت کے خواہش
پیدا کر دیا
گھر کا گھر سب سے پھر دے
خدا کر دیا
اس حسین ابن گیدر پہ لا کو سلام
میرے حسین
تجھے سلام
میرے حسین
تجھے سلام
روزے پہ مصطفیٰ کے اداسی سی چھائی ہے
میرے حسین
میرے حسین
روزے پہ مصطفیٰ کے اداسی سی چھائی ہے
کیوں
ارے کمبے کو کھو کے
زینبِ لچار آئی ہے
رو کر بکاری نانا
میں فریاد لائی ہوں
میں چھوڑ کر حسین کو جنگل میں آئی ہیں
ارے نانا
نانا ہوئی اسیر تمہاری نواسیاں
تو نو مقام پہ چھا گئی غم کی اداسیاں
ارے نانا
حرمِ حسین کے بازار میں
گئے
ہم سر برہنا خفے کے دربار میں گئے
جنابِ زینب مکالمہ کر رہی ہیں
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
جنابِ زینب مکالمہ کر رہی ہیں
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
نانا
نانا ہمارے گھر کا سب اسباب لٹ گیا
نانا ہمارے سر پہ نہ باقی رہی ردا
نانا ہزار درہاں جفا کی لائنوں نے
خیال کیا ہے
بیموں میں ہائے آگ لگا دی لائنوں نے
نانا
عجیب ثانیے ہم پہ گزر گئے
ارے رنجوں علم نے گھیر لیا
ہم جدر گئے
نانا
خدا کے گھر میں نہ ہم کو اماں ملی
بھائی نے شہر چھوڑ کر جنگل کی راہ لی
نانا
شہید ہو گئے بھائی کے جانسار
ایک ایک کر کے مر گئے
اصحابِ زیبکار
نانا
بلا کے بل میں قیامت کا رنگ پڑا
بھائی سے بھائی
باپ سے بیٹا
پچھڑ گیا
نانا
تمہاری شکل کا فرزن ایک جو تھا
کھا کر سینے جگر پر
وہ محرومی چل بسا
نانا
شکی کے تیر سے
اصغر ہوئے شہید
ارے ایسا ہوا نہ ہوگا
جہاں میں ستم شدید
نانا
شکی کے تیر سے
اصغر ہوئے شہید
ارے ایسا ہوا نہ ہوگا
جہاں میں ستم شدید
ارے نانا
ہوئی اصیر تمہاری نواسیاں
نانا
زمینِ کربو بلا لال ہو گئی
ارے قاسم کے لاش
گھوڑوں سے پمال ہو گئی
نانا
کٹا کی شانوں کو
اب باس مر گئے
مربت میں بھائی جان کو بیعاس کر گئے
نانا
تمہاری آل گئی لٹکے شام میں
پہنچی
علی کی بیٹیاں
دربارِ عام میں
نانا
اصیر صاحبِ تطہیر
ہو گئے
نانا
اصیر صاحبِ تطہیر
ہو گئے
ہم لوگ شہر شام میں
تشہیر ہو گئے
نانا اصیر بارہ تھے
اور ایک تھے رسن
باندے گئے تھے
مثلِ گناہ گار خستہ تن
نانا ہم اپنے حال پہ
روتے تھے زار زار
نانا ہمارے حال پہ
ہستے تھے بدشوار
نانا تباہ ہو کر ہم آئے ہیں شام سے
ایک داغِ نو سکینہ کا لائے ہیں شام سے
اب تک ہے نیل رسی کے شانوں کو دیکھ لو
نانا ہمارے تن پہ نشان دیکھ لو
جو رو کہ کرتی تھی قبرِ نبی پہ بین
تھر تھرہ رہا تھا روزہِ سلطانِ مشرقیں
بس ختم کر نصار اب یہ غمناک داستان
بس ختم کر نصار اب یہ غمناک داستان
روتے ہیں اس ستم پہ زمین و آسمان
روتے ہیں اس ستم پہ زمین و آسمان
السلام یا حسین
السلام یا حسین
السلام یا حسین