مرد پوچھو
بریلی میں ہم نے
سو سال میں کیا کیا دیکھا
آگئے
دربارِ رزا کی
گلیوں میں فیرڈوز کا نقشاں دیکھا ہے
امبر کو برستا دیکھا ہے
بادل کو گرجتا دیکھا ہے
دو خنصد پہ وہ فخرِ ازہر کی لاکھوں کو تڑپتا دیکھا ہے
اے تاجِ شریعت
اے تاجِ شریعت
ایک
جھلک چہرے کی تیرے پانے کے لیے
اے
مرشد میرے پاس ایک
جھلک چہرے کی تیرے پانے کے لیے
جھلتا
دیکھا
ہے لاکھوں کو ترستا دیکھا ہے
سو سال
تو کیا سو
لاکھ برس وہ نازل کرے گا قسمت پر
جس نے بھی ہمارے مرشد کا جس نے بھی ہمارے اختر کا وہ چال
کا چہرا
دیکھا ہے
مت پوچھو بریلی
میں ہم نے سو سال میں کیا کیا دیکھا ہے
جو تم سے ملا گل بن کے کھلا
جو تم سے پھیرا زلت میں گرا
جو تم سے ملا گل بن کے کھلا
جو تم سے پھیرا
زلت میں گرا
رضا کو
تو ہم نے غستا ہے رضا کو تو ہم نے دردر پہ بھٹکتا دیکھا ہے
مت پوچھو
بریلی میں ہم نے سو سال میں کیا کیا دیکھا گیا ہے
نسبری کا جب قانون بنا
اٹھاؤ
بریلی کا دولہ
اس ظالم حکومت کا سب نے تختا پلٹتا دیکھا ہے
بیٹھے گے رضا کی مسند پر کس شان سے وہ دیکھو تو ذرا
بیٹھے گے رضا کی مسند
پر کس شان سے وہ دیکھو تو ذرا
بیوانوں نے ان کے
چہرے میں
مرشد کا چہرا دیکھا ہے
مت پوچھو
بریلی میں ہم نے مت پوچھو بریلی میں ہم نے سو سال میں کیا کیا
دیکھا ہے
جب لوٹے بریلی میں
واپس وہ
مصر سے کر کے
سر اونچا
آمد پر نباسے کی سب نے نانا کو مچلتا دیکھا ہے
مت پوچھو بریلی میں ہم نے سو سال میں کیا کیا دیکھا ہے
دربارِ رضا کی گلیوں میں
فیضاز کا نخشاہ دیکھا ہے