آج نہیں ہے جو وہ کل یہی
منزل دور سہی ارادے نہیں
کھاٹے زمین پہ بہت اندھیرا سہی
کھولا ہے آسمان
تیر نے وہی مجھے جینا ہے
آگے بڑھنا ہے
دکھ کو جیت کر
آگے بڑھنا ہے
خود پہ ہوگر بھروسہ راہ ملے گی سہی
ناممکن کچھ بھی نہیں ممکن سے بھی
اندر ہے جو جنوب اسے مٹانا نہیں
جیتنے کی بادتی کبھی بھولنا نہیں
جیسے ہے سورج تو گرنوں کا پرتیک
ویسے ایک ہار بھی ہے جیت کے سمیب
مجھے جینا ہے
آگے بڑھنا ہے
دکھ کو جیت کر
آگے بڑھنا ہے