لگی بھوک بھلا دیتی ضمیر کو
سنگین وقت ایسا بس پیسہ پیرو
تقدیر کو بندہ کتنا کوسے
اندھے پن میں نہ دیکھ سکے بڑی تصویر کو
کسی کی عید جو ہے کسی کا ملال
کسی کی عزت پہ اٹھ رہے سوال
کسی کا ملک بنا اسی کا مزار
اٹھا دیں یوں آواز نہیں کسی کی مجال
کون ذمہ دار کس کے یہ ہاتھ میں
جواب ملتا نہیں کسی بھی کتاب میں
اور ہار کے حالات سے دے ہاتھ چھوڑ
اس بھاگ دوڑ میں کوئی کیوں دے رہا حساب دے
انا سے یہ جل رہے رشتے
بتایا تیبار ہو تو کس پہ
بھائیوں کے خون سے بینک جیکس یہ لکھ دے
مخاطب ہیں دل کے بے حصے یہ حصے
اور پھر سے یہ بولیں گے منافق
سچ جب میں ان سب کی رگ رگ سے واقف
اور کب تک یہ مکتب بھی جا کے
سالوں سال بتا کے تب ہی نکلیں گے جاہل
کیا جاہل وہ دیکھ شور ہو رہا باہر
دھون وہ جو تڑپ رہی کون اس کا قاتل
خون میں جو لپڑ چکی موت ہو ری ظاہر
وہ بچ بھی گئی تو کیا ملے گا اسے ساحل
اس باگل کا اپنا قصور تھا
کہ گھر سے نکل کر کچھ سکول اس کا دور تھا
اس کے ان کپڑوں پہ بنتا
گھورنا اس کا قصور تھا
کہ نشے میں وہ چھور تھا
یہی تو سوچ اور خمڑن میں ہے دونوں دیش
آئے دن آئے نابال غریب کیس
تجھے تیری وزارت کی سیڈے مبارک
عوام جائے بھار میں
تو تیری دیکھ لے
مولا میرے مولا
دنیا تے چل دا کی یہ
مولا میرے مولا
پیسے دے بن یہ زمین نے
مولا میرے مولا
دنیا تے چل دا کی یہ
مولا میرے مولا
پیسے دے بن یہ زمین نے
چھٹ دے تو چھٹ دے
دنیا تو رج کے
لے کے تو جانا کی یہ
رب نہ تو پھل کے
دنیا نو ٹھک کے
مو رب نو دکھانا کی یہ
بڑھو کے والدہ
میں زروع مقصد میں خوچے
ظالم سے چھوڑکا مقام لمس
اوکم خوبیاز زوان شو
چچا سربا میں خگولا غپا
در کے پتھل پیپی شاہ خبرے
عوضا میں دور شو
غم دا وجہ ٹنشن میں میں نور شو
لوگے دا سکر بیار چاہتا خور شو
وڑا ماشو مانو نا پختن کور شو
زوان کسانو اس گیرمو سپین اشوا
سپینو بوسین وو بیایو دموی نشوا
دا گولو نو خوار وو
مینا مو روزگار وو
یاو دمی غو بل رانے کو جون دیرا عذاب رو
اس مخار خوار ردے
او دا زن خوشحال ردے
چاہتا ز فریادو گم
زرم اوس جڑا تدے
نا پوئی گم چے کم یوں کس پا کم یوں کسم لار دے
تاجن بپیا دیکھو اس زرمو اسرنا تدے
زرمو اسرنا تدے
زرمو اسرنا تدے
زرمو اسرنا تدے
زرمو اسرنا تدے
مولا
میرے مولا
دنیا ت میں چلتا کی ہے
مولا
میرے مولا
پیسے دے بھنگے ضمیر نے
مولا
میرے مولا
دنیا ت میں چلتا کی ہے
مولا
میرے مولا
پیسے دے بھنگے ضمیر نے
چھڑ دے تو چھڑ دے
دنیا تو رج کے
لے کے تو جانا کی ہے
رب نو تو پھل کے دنیا نو ٹھگ کے
مو رب نو دکھانا کیے