میں تو پنج ترنے کا غلام ہوں
میں غلام ابن غلام ہوں
میں تو پنج ترنے کا غلام ہوں
مجھے عشق ہے تو خدا سے ہے
مجھے عشق ہے تو رسول سے یہ کرم ہے سارا
بطول کا میرے مو سے آئے
مہک سیدہ جو میں نام نوں تیرا جھوم کے
میں تو پنج ترنے کا غلام ہوں
شاہ اصطحسین بادشاہ اصطحسین
دین اصطحسین دیپنا اصطحسین
میں تو پنج ترنے کا غلام ہوں
ہوا کہ ایسے تن سے وہ سر جدا
جہاں عشق ہو وہی کربلا
میری بات انہی کی بات ہے میرے سامنے
وہی ذات ہے وہی جن کو شہرِ خدا کہے
جنِ بابِ سلّ علا کہے
وہی جن کو آلِ نبی کہے
وہی جن کو ذاتِ علی کہے
وہی پختہ ہے میں تو خام ہوں
میں تو پنج ترنے کا غلام ہوں
میں غلام ابنِ غلام ہوں
میں تو پنج ترنے کا غلام ہوں