ایک فتیل شفاہی صاحب نے فلم خواب و خون میں لکھا ہے یہ کلام آپ نے غور ہے
میں تیری رات کو اس دل سے بھلا کرتا ہوں
میں تیری رات کو اس دل سے بھلا کرتا ہوں
میں تیری رات کو اس دل سے بھلا کرتا ہوں
میں تیری رات کو اس دل سے بھلا کرتا ہوں
میں تیری رات کو اس دل سے بھلا کرتا ہوں
تو کوئی ریت میں لکھے ہوئی تحریر
وقت کے ساتھ جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں
میں تیری رات کو اس دل سے بھلا کرتا ہوں
میں تیری رات کو اس دل سے بھلا کرتا ہوں
تو کوئی ریت میں لکھے ہوئی تحریر نہیں
میںorka
میںorka
میںورا
میںورا
میں تیری یاد سے آزاد نہیں ہوں سکتا
یاد پھر یاد ہے
توٹی ہوئی زنجیر نہیں
یاد پھر یاد ہے
توٹی ہوئی زنجیر نہیں
وقت کے ساتھ جو نٹ جائے
وہ تصویر آئی ہو جائے
میں تیری یاد کو
اس دن سے بھلایا تھا تیار سے
دل ہے سینے میں
دھڑکتا ہوا پتھر تو نہیں
دل ہے سینے میں
دھڑکتا ہوا پتھر تو نہیں
یہ خیالوں کی تپسے بھی
پکھرے گا
پکھر جاتا ہے
یہ خیالوں کی تپسے بھی
پکھر جاتا ہے
جب تصویر میں کبھی
سامنے تو آ جائے
تیرے ملنے کو ترپتا ہے
مچل جاتا ہے
بھول جانے
دیتی تجھے
کوئی بھی تدبیر نہیں
وقت کے ساتھ جو نٹ جائے
وہ تصویر آئی ہو جائے
میں تیری یاد کو
اس دن سے بھلایا تھا تیار سے
لگیں گے
لیاں
پہلے
ملوک
ksi
کے
ہے
ک doit
ان
نوم
عمر یہ کیسے کٹے گی جو نہ پاؤں گا تجھے
زندگی ہے تو محبت کا شبستانوں میں
اپنے ہر خواب کی تعبیر بنا ہوں گا تجھے
کون سا خواب ہے جسے خواب کی تعبیر نہیں ہے
وقت کی ساتھ جو متجار وہ تصویر ہے
میں تیری بات کو اس دن سے بھلاتا کہوں سے
تو کوئی وید پر لکھی تحریر نہیں
وقت کی ساتھ جو متجار وہ تصویر ہے
میں تیری بات کو اس دن سے بھلاتا کہوں سے
تو کوئی وید پر لکھی تحریر نہیں
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật