ایسی کون جاتا ہے اممہ ایسی کون جاتا ہے
میں آ چلا تھا تجھ سے کتنی دور چھوڑ گیا
تھا تجھ کو میں مجبور
یہ
بڑا شہر
مجھے نگل ہی گیا
تیرا بیٹا
تجھ کو میں
نہ دے سکا
مجھے ایک بار تو پاس بلا لیتی
پھر ڈاٹ کے گلے مجھ کو لگا لیتی
مجھے ایک بار تو پاس بلا لیتی
پھر ڈاٹ کے گلے مجھ کو لگا لیتی
تیری بولوڑیاں گانوں میں گونجے ہیں میری یہ آنکھ بھی تجھے ہی ڈھونڈے ہیں
مجھے ایک بار تو سب کچھ بتا دیتی ایک آخری دفعہ گود میں سلا لیتی
تیری وہ تھپکیاں گاندھوں پہ جھپکیاں ماں تیرے ہاتھوں کی بنی وہ روٹیاں
یاد مجھے آتی ہے یاد مجھے آتی ہے
اممؑاں
ایسے کون چاہتا ہے اممؑاں ایسے کون چاہتا ہے