موسیقی
لکھا عاشقی کا میں نے فلسفہ آئیوں
جانے انجانے میں کرچلی دگا کیوں
تیری غتا تو کٹوں میں سزا کیوں
کوئے راہوں میں نا جانے لا پتا کیوں
دیتی محبت نہ سلا کوئی
ستم خود دیکھے ہے خفا کوئی
وفا بھی کر کے ہے برا کوئی
ایسا بھی کرتا ہے بھلا کوئی
چھوڑو نہ کرتا میں خیالی باتیں
لاتا نہ رشتوں میں پورانی باتیں
بانا عشق کی مثال کوئی
اور بانا عشق پہ سوال کوئی
دن بھی میرے کٹتے نہیں ہے
راتوں میں چمک ہی نہیں ہے
ایسے پہلے ہرگز تھا نہیں
جانے وہ بھی کیا کیا کہے گئے
تڑپے روئے پر ہم سہ گئے
ایسے پہلے ہرگز تھا نہیں
کیوں تم وعدے کر کے بہتے
کیوں ہم آسمیں تھے بیٹھے
پر تم بہتے ہوئے پانی بن گئے
ہم جو نا گوارا تمہیں
لوٹ کے نہ آنا میرے
غم کا ایک فسانہ بن گئے
جاتے جاتے بس سن لے ایک صدا
جانے دے اب تھی کس کی کیا خطا
دل سے
دل سے کرنا تھا تیرا شکریہ
دردے دل جو میں لکھوں تو وجہ
لکھا عاشقی کا میں نے فلسفہ یوں
پاس ہوتے ہوئے بنا فاصلہ کیوں
رب جانے کوئی حل نہ ملا کیوں
کرتی مجھ سے کیا غیروں سے گلا کیوں تم
وعدے کر کے بہکے کیوں ہم
آسمیں تھے بیٹھے پر تم
بیٹھتے ہوئے پانی بن گئے
ہم جو نا گوارا تمہیں لوٹ کے نہ آنا میرے
غم کا ایک فسانہ بن گئے
ہر صبح کی بارہ پہ سنوں میں ایک آنا
ایسے پہلے ہر غزتہ
ایسے پہلے ہر غزتہ نہیں
ایسے پہلے ہر غزتہ نہیں
ایسے پہلے ہر غزتہ نہیں