کیا
کیا ہوئے ہم
ایسے دونتے ہم
خواہشوں کو ہاں سے
کچھ سے داملے ہم
کیا سے کیا ہوئے ہم
یہ وقت یہ جان یہ دن یہ جائے تو واپس نہیں آتا ہے
جینگے کب ہم مریں گے کب بھالا تو نہیں کرانا وعدہ ہے
یہ سمیہ کا کھیل ہے سمیہ کو سمجھ کے پرکھ کے تھوڑا سا جانا ہے
میں وہ تھا جو خودی کا مول نہ جانے اب خودی پہ پیار آ جاتا ہے
We chose the road not taken
پہلے تھا آنکھوں میں در نہیں
اب در ایک ہی ہوگا نا جو میں نے سوچا تو بنے گا خوابوں کا گھر نہیں
اب میری کوئی چھوٹی عمر نہیں
اب ذہن میں بچا سبر نہیں
اب جا کے میں بولوں نا یہ سب بھی کیسی کی میرا مکان اب گھر نہیں
اور میری ساٹھ پہ چھت نہیں
ان گانوں کی عادتی لگ گئی
پیار سے کیا ہوئے ہم
پہلے ایسے کو نہ تھے ہم
گردی فائشوں کو حاصل
آخر خود سے جا ملے ہم
ملا میں خود سے وہاں پہ جہاں پہ کھڑا نہ کوئی تھا ساتھ پہ
چین سا کھڑا تیراہے پہ تھا پتہ نہیں جانا ہے کون سیرا
سارتھی بنا سنگیت یہ میرا سنگیت تھی میرا نصیب بنا
چنا ہے میں نے سنگیت ہے کہ لو سنگیت نے جانا ہے مجھے چنا
کہیں تھا میں نے سنا
ہوتا وہی جو ہے لکھتا خدا
کھولی کتاب اور دیکھا تو لکھا تا چاہے گا جو تو وہ ہوگا تیرا
پھرہ آج تک رکھا نہیں میں کبھی اب لوٹ کے دیکھوں جو میں
سوچوں کہ ملا نہ ہوتا یہ مقصد تو نشو میں ویسا ہی رہ جاتا میں
اب بیٹھ کے سوچوں میں یہ کیا تھا میں پہلے کیا ہو چکا میں
چاہتا ہوں رہنا اکیلا میں زیادہ ان لوگوں کا ساتھ پی پاتا نہیں ہے
سیکھا ہے میں نے بدلنا ضروری ہے سامنے بھی ساتھ نباتا نہیں ہے
دھوپتا خوشی جن لوگوں میں تھا میں وہ لوگوں سے بچا کوئی ناتا نہیں ہے
کہوں تو کہوں میں کیا کہ شاید یہ رب کی رضا
ان آنکھوں نے دیکھے وہ قواب جو قابوں میں بھی کبھی دیکھا نہ تھا
اب کروں تو کروں میں کیا کہ شاید یہ رب کی رضا
ہم آ چکے ہیں کتنی دور تب سوچیں گے یہ سبھی سوچا نہ تھا
پہلے نہ یہ گیت تھے نہ گیات تھا
سالوں سے میں گلیوں میں تھا لا پتا
نہ ہی کر گجرنے کی کچھ کوآش ہے
اندھیر میں پڑا میں جندہ لاش سال کچھ عادتوں کے پیچھے میں برباد تھا
بیتے کافی سالوں تک میں کھت سے ہیرا بھاگتا
جندگی میں جینے کی بھی نہ بچی کوئی لال سا
میں سچ کہوں تو باوے میرا جینہ ہی بیکار
تھا پھر یہ کلم ملا جیسے ایک سنم ملا
ساری مر چکی ان کو عائشوں کو ایک جنم ملا
ہے خدا کا شکریہ کی مجھ کو یہ کرم ملا
ایک ایسا کرم جو کرتے ہوئے میں کتھ سے جا ملا
میری ہر گھڑی کا میں ہی کتھ سکھا بن گیا
بیتہ ہاشہ بیتہ دردیہ دبا بن گیا
آج بھی میں کتھ کو دیکھو آئینے میں جو کبھی سوچتا ہوں
یا خدا میں کیا سے کیا بن گیا
کیا سے کیا ہوئے
پہلے ایسے بھوڑا تھے
بڑے خواہشوں کو حاصل
آکر کچھ سردہ ملے