ان کے جلبوں پہ ہما وقت نظر ہوتی ہے
جائے یار میں یوں اپنی بسن ہوتی ہے
جانے کیا جیسی محبت کی نظر ہوتی ہے
کچھ ادھر ہوتے ہیں پنیہ ہی ادھر ہوتی ہے
پوچھائے یار میں
ہوش والی میری رہشت کو بھلا کیا سمجھے
کہ دیوان کو عالم کی خبر ہوتی ہے
پوچھائے یار میں
عشق میں کاندھ ستاروں کی حقیقت کیا ہو
پوچھائے یار میں قربان سہر ہوتی ہے
پوچھائے یار میں
میری ان کو نہ خبر ہو یہ کوئی بات نہیں
یہ کو سارے زمانے کی خبر ہوتی ہے
پوچھائے یار میں
آپ کی یاد سے دل ہوتا ہے روشن میرا
آپ کو دیکھ کے بیدار نظر ہوتی ہے
پوچھائے یار میں
میرے دعوت میں سواجاتے ہیں دونوں عالم
دل جانا کی نظر کب
ادھر ہوتی ہے
پوچھائے یار میں
اور کیا ہوگی میرے عشق کی میراج بنا
رگی یار کے قدموں میں بسر ہوتی ہے
پوچھائے یار میں یوں
اپنی بسر ہوتی ہے