کوئی دنیا
آیا تاں میں
نہیں ہم تاں تیرا
ہو جو حاتم کو مویسے
تیرا راہ تیرا کہ اُٹھے دیکھ کے
بخشش میں یہ رتبہ
حضرت نوکر دونوں ہاتھ چھوکے بولے گا
وہاں کیا جو قرم ہے شہبت ہاتھ تیرا
سنتا ہی نہیں ماں کرنے والا تیرا
جو قرم ہے
شہبت ہاتھ
رشتہ ہے بہاں
یہی تفلی و جوانی کے پیتا ہے محساس
ہمیں یوتاری سینہ دا
جیدا
لنگر مدینوں ہاتھ چھوکے
تیرے ٹکڑوں پھلے دیکھی کھو گئے
چھڑکی آنکھا ایک آہاں چھوکے ستکا
تیرا راہ تیرا راہ تیرا
جا نہاں جانای مجھم امیر بہ دوکھلگتی
اس عرصے کے پیارہ ہاتھ لے رہا
وہاں
تجھے خود سا جانے
اور کچھ وہاں سے بیان
ملنی خدا کا جانے
جانے جانے جانے جانے
کہ
یہ اتنا جانے
پھر آلہ حضرت نے فرمایا
اس رواہ شہر پہ
اڑتا ہے فریرہ