नमस्कार दोस्तों
मैं आपका अपना रांकेश जीवनपुरवाला
और ये गीत हमारे बहुती पुराने और आदलिये कवी
पंडिक ज्यानी राम जी अलेवावाले
उनका लिख्या हुआ किसान की दूरदर्शा के उपर
कि किसान जो अन पैदा करता है
वो किस तरह की तकलिफें जहिलता है उसके
बारे में बताया है कैसे क्या बताया भी?
धीरे धीरे आजादी का नशा उतरता देख लिया
मन धीरे धीरे आजादी का नशा उतरता देख लिया
دوسر تیسر چو سر کر کے مر پچھ کے باری بھوویں
آدھی مر جا آدھی کر جا آدھے میں آدھی ہوویں
دو منتھوں کے دموں میں کش کش کے کرجے دھوویں
پھون پسنا ایک کرے پر پھر بھی نہ سکتے سوڑے
پو ماں کے مینے میں دنا رجائی ٹھر تا دیکھ لیا
دھیرے دھیرے آج آدھی کا نشا اتر تا دیکھ لیا
خود خیتی کی کار کرڑیا
بکھا مر تا دیکھ لیا
دھیرے دھیرے آج آدھی کا نشا اتر تا دیکھ لیا
گرمی کے مہ کھنٹ پسیا کدے ملے آوکا سے نہیں
تھارا گھنٹے کام رات دن ملتا سکھ کا سا سے نہیں
چھے مینیا تک ایک ایگی تیگی
اونی پوری آسے نہیں
کھاں کی کری کمائی کبھی گرہت
پاس نہیں
ہو
ہو
دیکھ لیا
دھیرے دھیرے آج آدھی کا نشا اتر تا دیکھ لیا
گھرا سواسن چھوری ہو تو سارے فرج پگانے ہو
دیا سادھی میں دو بھائی دی گھر پہ بیٹھ جمانے ہو
مکلاوا پھر دوسر تیسر چھوٹ چھک بات نمانے ہو
چھوری نے ڈکنے کی خاطر نتیجہ رش مانے ہو
پر خود گلیاں کے ماں آتا ننگای پھر تا دیکھ لیا
خود خیتی کی کار کرڑیاں
بوخہ مرتا دیکھ لیا
خود تو
بوخہ مرتا پر کیوں کرگل بوتے آنے کا
نون مرچ گھی پلدی نٹھا
کے کے لیا دے دانے کا
کونیاں جھوٹی بات کہی وہ بول سہی سشانے کا
گیاں میں رام نے کھا فانسی اتمتیاں کرتا
دیکھ لیا
دھیرے دھیرے آج آدھی کا نشا اترتا دیکھ لیا
خود خیتی کی کار کرڑیاں بوخہ مرتا دیکھ لیا