فیض لکھتے ہیں سنو ایک داستا
یہ ہے فاجا کی خرامت کا بیع
فیض
لکھتے ہیں سنو ایک داستا
یہ ہے فاجا کی خرامت کا بیع
ہندو میں
فاجا میرے جب آ گئے
گونج تھی اللہ اکبر کی صدا
چل پڑی تھی اب مسرط کی ہوا
دشمن اسلام سے لڑتے رہے
فاجا جی سب پہ کرم کرتے رہے
ایک دن کا واقعہ ہے مہربان ایک پندت کی تھی لڑکی نوجوان
باپ سے ایک دن وہ بولی بے خطر دودی لے کے آپ جاتے ہیں کدھر
بولے پندت سن اے میری لادلی
ایک مندر میں بڑی سی مورتی
دودھ بھی اس پر چڑھاتے روز ہی
مورتی کو ہم نہ پوجیں گے اگر پھیر لیں گے دیوتا ہم سے نظر
دیوتا سے بیٹی ہم منصوب ہے
اس لیے ہی تو چڑھاتے دودھ ہے
بولی بیٹی میں بھی مندر جاؤں گی
دودھ ہاتھوں سے پلا کر آؤں گی
جب تک نہ پیے گی مورتی
تب تلک میرا رہے گا دل دکھی
وہ ہمارے ہیں اگر سچے خدا
تو سنیں گے وہ ہماری التجا
بولے پندت لادلی نہ ضد کرو جاؤ نہ مندر کو تم گھر میں رہو
مورتی پیشک ہماری ہے خدا پوری ہو سکتی
نہیں یہ التجا مورتی پتھرک ہے ہلتی نہیں
دودھ کوئی مورتی پیتی نہیں
بولی بیٹی میں تو مندر جاؤں گی دودھ میں ان کو پلا کر آؤں گی
وہ ہمارے دیوتا ہے وہ خدا
ہاتھ میں ان کے ہی ہے یہ فیصلہ
ان پلائے
دودھ اب نہ آؤں گی
پوڑھ کے سر کو وہیں مر جاؤں گی
بیٹی پندت کی جو تھی مندر گئی
دودھ کا بھر کر کے پیالہ لے گئی
پہلے جا کے
ہاتھ جوڑے پھر کہا
التجا میری سنو اے دیوتا
دو در پہ تمہارے آئی ہوں
دودھ میں تم کو پلانے لائی ہوں
پیجیے
ہاتھوں سے میرے دودھ تم
دیوتا دکھنیوں پہ کیجے یہ کرم
التجا وہ کر رہی تھی بار بار
وہ رہی تھی وہ بڑی ذارو خطا
جب پیانہ مورتی نے دودھ تھا
ہو گئی لڑتی تھی بے حد غم زدا
مورتی کے پیروں میں سر تو پھٹک
کر رہی فریاد تھی وہ بے ججک
بہرہا سر سے بہت ہی خون تھا
وہ پتھر کا کھڑا چپ چاپ تھا وہ گیا قسمت سے فوجا کا گزر
جب پڑی فوجا تھی لڑتی پڑی نظر دیکھ کے منظری اندر آئے وہ
آ کے اس لڑتی سے یوں بتلائے وہ
اس لیے بیٹی تو یوں بدحال ہے
کیا ہوا ہے سنگ تیرے کچھ حادثہ خون سے لکھ پتھے کپڑے کیوں بتا
بولی لڑکی مورتی
سنتی نہیں
بولی لڑکی مورتی سنتی نہیں
میں پلاتی دودھوں پیتی نہیں
بولے فوجا مت ہو بیٹی غم زدا
دودھ کا پیالا پیے گا دیوتا
مورتی کے پاس فوجا آ گئے
اب رحمت اس گھڑی تھے چھا گئے
کان پگڑا مورتی کا اور کہا
کیوں نہ لڑکی کا تو کہنا
مانتا
وہ پلاتی دودھ کیوں پیتا نہیں
بات کیوں لڑکی کی تو سنتا نہیں
حکمِ رب سے دودھ پی لے تو ابھی غم زدا لڑکی کو مل جائے خوشی
فوجا کے کہتے ہی بتہلنے لگا
دودھ کا پیالا وہ اب پینے لگا
پی رہی تھی دودھ جب وہ مورتی
وہ رہی پندت کی بیٹی کو خوشی
دودھ کا پیالا جو سارا پی لیا
جیسا تا پت پہلے ویسا ہو گیا
فوجا جی مندر سے رخصت ہو گئے
غم زدا
بیٹی کو خوشیاں دے گئے
جب وہ بیٹی پہنچی تھی اپنے نگر اس کی جانب اٹھ رہی تھی ہری نظر
کس رہے تھے لوگ اس پہ
پتیاں دے رہے تھے من ہی من میں گالیاں
من ہی کالا کرا کے آئی ہے
آج یہ عزت لٹا کے آئی ہے
خون سے اس کے سبھی کپڑے سنے پال بھی اس کے سبھی بکرے پڑے
جو سب نے بتائی اس نے بات
کیا ہوا مندر میں اس لڑکی کے ساتھ
اہد دل تا جو وہ پورا ہو گیا
دیوتا نے دودھ مجھ سے پی لیا
بات سن لڑکی کی سب ہسنے لگے
بات یہ جھوٹی ہے سب کہنے لگے
مورتی پتھر کی ہے بے جان ہے سن کے باتیں دل بڑا حیران ہے
لوگ مندر کو گئے ساتھ میں
پندت کی بیٹی لے گئے
دودھ کا پیالا بھرا تھا اسی گھڑی بُتھ کے ہوتوں پہ رکھا کہنے لگی
دودھ پی لے دیوتا تجھ کو قسم
ٹوٹ جائے گا میرا برینا بھرم
دیوتا نے کوئی حرکت ہوئی
جو کھڑی آوام کی ہسنے لگی
دودھ جو بُتھ نے نہ لڑکی سے پیا بُتھ کے کانوں میں یہ لڑکی نے کہا
دودھ پی جلدی سے دیکھیں گے سبھی
برنا خواجہ کو بھلاتی ہوں ابھی
نام خواجہ سنتے ہی بُتھ ڈر گیا
ایک دم ہی دودھ وہ پینے لگا
ماجیرا دیکھا یہ سب نے تو کہا
کون ہے خواجہ ہمیں بھی دے بتا
خونڈنے نکلے سبھی تو مل گئے
دیکھ کر خواجہ کو سب ہی خوش ہوئے
گر پڑے پیروں میں سارے بھاکوام
پلٹی جا کی ہم کو بھی کر لو غلام
آپ کو مانیں گے اپنا دیوتا آپ ہی سے ہم رکھیں گے واسطا
خواجہ ہم سبھی کا ایک خدا
اس نے ہی سب کے لیے پیدا کیا
رسول اللہ اللہ کے نبی دین حق اپنا یہ ہوگی خوشی
پھر سبھی نے فیض کلمہ پڑھ لیا
اور رب کے سامنے سجدہ کیا