حائے اکبر حائے اکبرایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےلاش اکبرؑ کی ہے یا ہاتھوں سےاپنی میت اُٹھا رہے ہیں اُسےایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےلال کی لاش رکھے کاندوں پر اُٹھنے لگتے ہیں اور گرتے ہیںکہہ کے آباس اُس گھڑی رو کرماوفہؑ کو بھولا رہے ہیں اُسےایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےاپنے بیٹے کو پرسہ دینے کو یا علی اب نجف سے آ جاؤلاش پر نوجوان بیٹے کیگر کے پھر اُٹھنا پا رہے ہیں حسنؑایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےخود ہی ہاتھوں سے کھینچ کر نیزا ہاتھ رکھے پیسر کے سینے پراُجڑی ماں گری سے اس طرح آئےزفمِ اکبر چھوپا رہے ہیں حسنؑایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےایک قیامت ہے آج مقتل میںخون کے آسوں باہر رہے ہیں اُسےایک کانٹا کل اس کو چھبتا توکہہ کے اکبر پا در تڑپتے تھےایک کانٹا کل اس کو چھبتا توکہہ کے اکبر پا در تڑپتے تھےاللہ جانے اب اس کے لاشے سے