ہولے ہولے سے گزر رہی ہے رات
تیری یادوں
کا چھایا ہے ساتھ
ہوا بھی دھیرے دھیرے کہ رہی
تو جو نہیں کیوں میں یہی
خو گیا
میں کہیں خو گیا
تیری یادوں کے شہر میں سو گیا
تنہائی بھی مجھ سے پوچھتی رہی
تو جو تھا اب کہاں خو گیا
بھیگی سرکوں پہ چلتا ہوں اکیلے
ہر مور پہ تیری یادوں کے میلے
تیری ہسی کی گونج سنائی دیتی ہے
پر سچ تو یہ ہے تو نہیں ہے یہاں
کاش ایک فل کے لیے لوتا آئے تم
پھر سے وہ باتیں
لے آئے تم
میں بھی پھر سے جیلوں ذرا
تیری یاد کو محسوس کروں ذرا
خو گیا میں کہیں خو گیا
تیری یادوں کے شہر میں سو گیا
تنہائی بھی مجھ سے پوچھتی رہی
تو جو تھا اب کہاں خو گیا