کاش میں تیری
حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا
کاش میں تیری
حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا
کاش میں تیری
حسین
ہاتھ کا
کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ
سے بڑے مان کے ساتھ
اپنے نازک سی کلائی میں چڑھاتی
مجھ کو
اور بے طاب سے فرقت کے خضالم ہو میں
جو کسی
سوچ میں ڈوبی
جو گھماتی
مجھ کو
میں تیرے
ہاتھ کی خوشبو سے محق سا جاتا
کاش میں تیری
حسین ہاتھ کا
کنگن ہوتا
مجھ کو جب بھی تو نیدوں
کے سفر پر جاتی
مرمری
ہاتھ کا ایک تکیہ بنایا کرتی
میں
تیرے کان سے لگ کر
کئی باتیں کرتا
کاش میں
تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا
مجھ کو بے طاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشا
کسی روح کے گلشن میں
محقتا رہتا
کچھ نہیں
تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں
تیرے حسین
ہاتھ کا
کنگن ہوتا
کاش میں تیرے حسین
ہاتھ کا کنگن ہوتا
کاش میں تیرے حسین
ہاتھ کا
کنگن ہوتا