عبرت کے لیے فیض نے لکھا ہے مومنوں
جنات کے جنازے کا ایک واقعہ سنو
عبرت کے لیے فیض نے لکھا ہے مومنوں
جنات کے جنازے کا ایک واقعہ سنو
گزرے زمانے کا میں سنا کہاں ہوں ایک بیان
دل کا پکا پا اٹھے گا ہے ایسی یہ داستان
تاجر کا ایک اس کا تجارت کا کام تھا
کردار اس کا نیک وہ آلام آپام تھا
ایک باری وہ گیا تھا تجارت کے واسطے
جنگل گھنا تھا خوب تھے دشباری راستے
شدک بہت تھی پیاس کی کھانے کی چاہتی
پانی کی اب تلاش میں اس کی نگاہ تھی
کچھ دیر بعد آیا نظر اس کو ایک گون
پہنچا گون کے پاس میں ٹھہرا تھا وہ وہاں
کچھ پاس میں خجوریں تھی کھانے لگا تھا
وہ پانی میں گھٹلیوں کو گرانے لگا تھا وہ
سوچا تھا پہلے میں یہ خجوروں کو کھاؤں گا
پھر پی کے پانی پیاس میں اپنی بجھاؤں گا
پھر پی کے پانی پیاس میں اپنی بجھاؤں گا
خالی خجوریں جب ہوا اس کو ملال تھا
پانی کوئے کا کون کے جیسا وہ لال تھا
کچھ دیر بعد
لوگوں کا حُجوم آ گیا
پھر چھوٹے سے بچے کا جنازہ وہاں اٹھا
کچھ دور تک وہ لوگ جنازے کو لے گئے
پھر ایک دم ہی سارے وہ غائب تھے اب ہوئے
تاجر تھا بڑے خوف میں بے حد تھا غم زدہ
منظر تھا ایسا دیکھ جسے وہ تھا ڈر گیا
جن پاس میں آیا کوئے کہ تھا
انسان کے وجود سے بے حد تھا وہ کھڑا
آواز اس کی تیز تھی سورت تھی بھیانک
تاجر سے جن نے بولا تھا ایک دم وہ اچانک
قاتل ہے تُو نے بچہ میرا قتل کیا ہے
بیوی کے دل پہ تُو نے میری رخون دیا ہے
امت جٹا کہ کہنے لگا اب تو وہ تاجر بچے کا تیرے قتل ہوا کیسے ہیں آخر
بچے کا تیرے قتل ہوا کیسے ہیں آخر
میں جانتا ہوں کہ نہیں میں نے کوئی خطا
اِلزام مت لگا
اے جن بادشاہ تُو یہ اِلزام مت لگا
اے جن بادشاہ تُو یہ اِلزام مت لگا
بولا تھا جن نے تُو نے بشری کی بڑی خطا
تیری وجہ سے ہی میرا بچہ ہے مر گیا
کھا کے خجور گٹلی کوئے میں جو ڈال دی
گٹلی کی چوٹی نے میرے بچے کی جان لی
جن نے کیا گناہ سزا اس کی پائے گا
بدلے میں میرے لالے کے تُو جان گوائے گا
تاجر یہ
بولا سچ ہے اگر جن بادشاہ
کرتا قبول ہوں میں یہ انجانا سا گناہ
کچھ دن کا وقت دے مجھے گھر اپنے جاؤں گا
بیوی کو اور ماں کو تسلی بندھاؤں گا
کچھ لوگوں پی رکھی ہے میرے پاس امانتی
کرنا نہیں میں چاہتا ہوں اس میں خیانت
جن کو عدا فرض مجھے کوڑا وقت دے
پھر تیری ہے مرضی تُو مجھے جیسی موقع دے
بولا تاجر کیسے میں تیرا یقین کروں
بولا تاجر کیسے میں تیرا یقین کروں
آئے گا تُو نہ لوٹ کے
کیسے میں وقت دوں
تاجر نے کہا جن سے لے لے کوئی قسم
وعدے سے میرے پیچھے ہٹیں گے نہیں قدم
مدت کو توری ہوتے ہی میں خود ہی آوں گا
لے لے نہ جانے شوق سے میں سر جھکاؤں گا
بولا تاجر نیک تُو لگتا مجھے بشری
مولت میں تیسی دن کیلے اب دے رہا تجھے
مدت یہ پوری ہوتے ہی ملی نہ یہی مجھے
وعدہ وہ کری کے جن سے تاجر چلا گیا
اس نے تو بھی اسی دن میں ہی سب کام کر لیا
دنیا کی جو بھی ریتی تھی وہ ریت نبھائی
پیٹی تھی ایک اس کی بھی شادی تھی رچائی
جس کا بھی اس پہ قرض تھا سارا چکا گیا
تاجر کا جو بھی فرض تھا اس نے عدا کیا
دس دن بچے تے رہنے لگا وہ اداس تھا
بچنے کا موت سے کوئی موقع نہ پاس تھا
شہر کو جب اداسی بہت دیتی تھی بی بی
اس کی اداسیوں کا سبب پوچھتی بی بی
تاجر نے ایک دن تھا سبھی کو ہی بٹھایا
جو ماجرہ ہے اس نے سبھی کو ہی سنایا
سب نے سنا یہ ماجرہ
حیرت زدا ہوئے
چہرے کا رنگ اڑ گیا سب گم زدا ہوئے
بی بی کا ہو گیا برا رو رو کے حال تھا
شوہر ایک ایسے مرنے کا بے حد ملال تھا
رہتے تھے عشق آنکھوں سے ملتی نہ تسلیم
وہ رہنے لگی اب تو بہت ہی دکھی دکھی
بستی میں جو بھی سنتا وہ ہوتا تا گم زدا
تاجر کے حق میں دل سے کیا کرتے سب دعا
جب تین دن تھے باقی تو گھر سے بدا ہوا
بی بی سے اور بچوں سے بھی اپنے جدا ہوا
بی بی دکھی تھی عشق بہاتی وہ رہ گئی
بی بی دکھی تھی عشق بہاتی
وہ رہ گئی
شوہر گیا تو ہاتھ ہی لاتی وہ رہ گئی
شوہر گیا تو ہاتھ ہی لاتی وہ رہ گئی
سورتیا پہنچا وہ بہاں جنگل کے بیچ میں جو بنا
موت کا کھوائاں
آ کر ہی پونے پہ بیٹھ گیا سر جھکا کے وہ
اُس جن کے انتظار میں
آنسو بہا کے وہ
کچھ پل کے بعد ہی وہاں وہ جن آ گیا
تاجر نے اُس کو دیکھا تو دیکھا رہا گیا
ہمت جٹائی اور پھر تھا جن سے کہا
اے جن بادشاہ میں وعدے پہ آ گیا
مرضی ہے تیری چاہے ستم جو بھی توڑ لے
کر دے حلاق چاہے مجھے زندہ چھوڑ دے
جو دینا چاہتا ہے وہ دے شوق سے سزا
لیکن کہوں گا میں یہی میری نہیں خطا
پانو دے حشر پوچھے گا تجھ سے وہ جب خدا
کیوں بے خطا کو تُو نے دیتی موت کی سزا
مابود کو اپنے بتا تُو کیا بتائے گا
میری موت کی سزا سے بچنا پائے گا
بولا تھا جن میں تُو ہے بڑا موت بری بشری
آنکھوں میں تیری موت کا بالکل نہیں ہے ڈر
مجھ کو ہے اپنے آقا سلمہ کا واسطہ
جا میں نے خون معاف کیا اپنے لال کا
حسن سلوک تیرا میرے منتو بھا گیا
سیرت کو تیری دیکھ ترست تجھ پہ آ گیا
کہ کر کے جن بات یہ خاموش ہو گیا
اس کو لگی نہ دیر وہ روحوش ہو گیا
خوشی وہ چلا گھر کو آ گیا
اس نے پڑھی نماز کی شکرِ خدا کہا
بیوی نے اس کو دیکھا تو آ کر لپٹ گئی
رب کے کرم سے ساری مصیبت تھی کٹ گئی
پھر سے چراغ گھر میں مسر رکھ کے جل گئے
خوشیوں کے پھول پھر سے گل ستا میں کل گئے
آئے مصیبتیں تو نہیں ڈر نہ تم کبھی
رب سے دعائیں مانگ کرو فیض بندگی