ہاں قسم روج میں کھاؤں تھی تیری ماں نے ماں بتاؤں تھی
سوچ سوچ بلکاں کے نام میں خود نے سپنے دکھاؤں تھی
میں روج روں تھی راتاں نے اس کر کے تو بھی نہ سویا
میں حیر بتا دی تن نے ریتو خود رانجانہ ہویا
منحشر عشق کا بیرا تھا بودھا بابو گھر میرا تھا
اس کی عزت کی خاطر ہی مہندی ہاتھا پیلاؤں تھی
آکھا کے پانی کر کے رنگ مہندی کا پکا نہ ہویا
میں حیر بتا دی تن نے ریتو خود رانجانہ ہویا
میں حیر بتا دی تن نے ریتو خود رانجانہ ہویا
سپنے ٹوٹے تھے میرے بھی توں کلا عشق میں ہاریا نہ
در تھا بھائی آں کی عزت کا سائبان مرزا ماریا نہ
ٹوٹے تیرا میں کوا ایک بھی میرے عشق کا نہ ہویا
میں حیر بتا دی تن نے ریتو خود رانجانہ ہویا
میں حیر بتا دی تن نے ریتو خود رانجانہ ہویا
مٹی کے کن ٹون لاغ رہا جلتی بجتی راخ میں
بے مطلب کے بات کرےنا مطلب ہر ایک بات میں
ایڈی اتنی گلتی تیری رہنا تھا اوقات میں ایک
عشق فرہ بھی کرنا تھا ایک کرنا تھا اپنی جات میں
میں حیر بتا دی تن نے ریتو خود رانجانہ ہویا
میں حیر بتا دی تن نے ریتو خود رانجانہ ہویا