کیا ہوگا خود ہی سوچی یہ رتبہ حسین کا
چوما رسول پاک نے
چہرہ حسین کا
چاہو کہ رب قبول کرے آپ کی دعا
اپنی دعا میں لے لو وسیلہ حسین کا
نمی آنکھوں میں بھر کر کربلا کی داستا سنیے
جسی مبننِ اصغرؑ کی شہادت کا بیعا سنیے
نبی کے دین کی خاطر حسین بنی علی حیدر
روانہ ہو گئے کربل کی جانب سبتِ پیغمبر
مقامِ کربلا پہنچے تو دیکھا ایسا نزارہ
تھے نرغے میں یزیدی فوج کے تھا نہر پے پہرا
نہ گھبرائے حسین بنی علی مرضی خدا کی تھی
شہادت کی تڑپ ان کو یہاں تک کھینچ لائی تھی
لگائے اپنے خیمِ کربلا میں ابن حیدر نے
صدا دی دوسری جانب سے یہ دشمن کے لشکرنی
یزید ابنِ معاویہ کی بیعت کو نہ ٹھکراؤ
یزیدی فوج کے لشکر سے تم ہرگز نہ ٹکراؤ
کہا شبیر نے ہم دینِ احمد کو بچائیں گے
خوشی سے ہم خدا کی راہ ہمیں سر کو کٹائیں گے
ادھر اسلام کے رہبر ادھر ظالم ستم گر تھے
ہمائت نے حسین بنی علی کے کل بہتر تھے
اجازت رنگ کے لے کر ہر چلے پھر سر کٹانی کو
جہاں بھرمیں نبی کے دین کا ڈنکا بجانے کو
فلک یہ خونی منظر دیکھ کر آنسو بہاتا ہے
محمد کا گھرانہ کربلا میں سر کٹاتا ہے
محمد کا گھرانہ کربلا میں سر کٹاتا ہے
وح بن قلب نے بھی دے دیا راہ خدا میں سر
فداؤن محمد ہو گئے دینِ محمد پر
گئے اباس بی جانے
شہادت نوش فرمانے
کٹے بازو چھدا سینا نہائے خون سے اپنے
اٹھارہ سال کا کڑیل جوان بیٹا علی اکبر
گئے مقتل میں کرنے کو فداراہ خدا میں سر
علی اکبر کا لاشا لے کے شاہ جب آئے خیمے میں
سنی رونے کی آغازیں طلب اور آہ خیمے میں
پکاری سیدہ زینبؑ طلب کر اے میرے بھئیہ
خوشی سے آپ پر صدقہ کیا اونو محمد کا
شہادت اقربا کی باخشی برداشت کرلوں گی
زباں پر ایک بھی حرف شکایت میں نہ لاؤں گی
مگر اصغر کی حالت ہم سے اب دیکھی نہیں جاتی
ہے حالت رحم کے قابل میرے معصوم اصغر کی
بڑی اب کر ہے حالت ہے غشی معصوم پیتاری
یہ حالت دیکھ کر سب کر رہے ہیں گریہ و زاری
یہ حالت دیکھ کر سب کر رہے ہیں گریہ و زاری
ہمیں سوکھی زبا جس دم علی اصغرؑ دکھاتا ہے
گلی جاں ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے دل بیٹھا جاتا ہے
میرے گلشن کا بھی یہ پول مر جانی کو ہے بھئیا
یہ بچہ موت کی آغوش میں جانی کو ہے بھئیا
ابھی کچھ اور آگے کہتی بنت فاطمہ زہرا
یکا یک شہربانوں نے کہا رو کر میرے آقا
دین پاک سے کربل کے اس میدان تک آئی
شہادت سب کی دیکھی پھر بھی نہ کوئی شکایت کی
مگر یہ دیکھو میرے لال کی پتھرا گئی آنکھیں
ڈھلا جاتا ہے من کا اور تھمنے والی ہے ساسیں
حلق ہے خوشک قطرہ بودھ کا اس نے نہ پایا ہے
میرے معصوم نے دو روز فاقے سے بتایا ہے
خدا راں مامتا کی ماری ماں کی
التجا سن لو
میرے معصوم کو بس چند قطرے پانی پلوا دو
دکھاؤ بے کسی بچے کی ان کو رحم آجائے
کہو دو بھوت پانی دے دے اس کی جان بچ جائے
کہو ان ظالموں سے دیکھ لو خود اس کی حالت کو
یہ ہے معصوم کیا جانے کسی کی کوئی بیعت کو
یہ ہے معصوم کیا جانے کسی کی کوئی بیعت کو
گرم لو کے تھپیڑے اب اسے کملانے والے ہیں
عزامے اب یہ ننھے پھول بھی مر جانے والے ہیں
کہو بدلے کی حسرت ہے اگر تو ہم سے بدلالے
مگر چھ مہا کے معصوم کو اس کی سزا نہ دے
بھلے ہی عمر ابن ساد کو نہ ترس آئے گا
اگر ہیں ان میں جو اولاد والے ان کو آئے گا
ترپ دیکھی جو ماں کی دل پہ صدمہ ہو گیا تاری
حسین ابن
علی کی آنکھ سے آسو ہوئے جاری
امام پاک نے فرمایا بانو ہے خیال اچھا
اگر آسار تو بے حد نظر مجھ کو نہیں آتا
میرے عون
محمد پر جو ظالم رحم نہ کھائے
علی اکبر کے لاشے پر جنہوں نے گھوڑے دوڑائے
وہ پتھر دلیں دیں گے اصغرے معصوم کو پانی
اے میری شہر بانو ان سے یہ
امید بے مانی
اگر پھر بھی لیا باہو میں ننے پیارے اصغر کو
دکھانے حال زارے پشن لب ظالم ستمگر کو
کہا بانو نے اب رب کے حوالے اس کو کر دی ہوں
خدا ہے حامی و ناصر بھروسہ اس پہ کر دی ہوں
خدا ہے حامی و ناصر بھروسہ اس پہ کر دی ہوں
خدا ہے حامی و ناصر
بھروسہ اس پہ کر دی ہوں
علی اصغر کے ہوتو پر
تبسم آشکارا تھی
انہیں بھی راهے اپنے جان دینے کی طمنی تھی
عمر
نے جب حسین پاک کو دیکھا تو گھبرایا
سنبھل جاؤ حسینؑ آتے ہیں یہ لشکر کو بتلایا
پاک کا گود میں کچھ ہے تو وہ لشکر سے کہتا ہے
حسینؑ ابنِ علیؑ گھبرا گئے ہیں ایسا لگتا ہے
سلاح کے واسطے قرآنِ اکرس لے کے آئے ہیں
یزیدؑ ابنِ معاویہؑ کی بیعت کرنے آئے ہیں
نہیں تو خیمہِ شبیرؑ میں ماتم ہی ماتم ہے
اگر بیعت کرے تو ان کو مالا مال کردینا
نہ کی بیعت تو پھر ایک آم بھی پامال کردینا
قریب آ کر حسینؑ ابنِ علیؑ کے عمر یہ بولا
کہو کیوں آئے ہو لگتا ہے بیعت کا ہے کچھ منشا
علیؑ کے شیر نے للکارا ظالم سے یہ فرمایا
قسم اللہ کی میں اپنی مرضی سے نہیں آیا
قسم اللہ کی میں اپنی مرضی سے نہیں آیا
قسم اللہ کی میں اپنی مرضی سے نہیں آیا
اگر میں خود سے آتا تو نہ دیتا اتنی قربانی
دے دوں گا فوج شام کے آگے یہ پیشانی
میں دامن میں لیے چھ مہ کے
اصغرؑ کو آیا ہوں
میں ایک دکھیاری ماں کا ساتھ میں پیغام لایا ہوں
تمہاری دشمنی ہم سے تو ہے ہم کو مٹا دینا
میرے ماسوم اصغرؑ کو نہ تم اس کی سزا دینا
اے عمرِ سادھ کو ظلم و ستم کی انتہا نہ کر
نبی کا یہ نواسہ ہے نہ اس پہ ظلم بیجا کر
کسی کی اس کو بیعت اور بغاوت کا پتا کیا ہے
نہیں معلوم اس کو کے سزا کیا ہے جزا کیا ہے
یہ میری بہن زینب اور شہربانوں کا پیارا ہے
میری بیتی سقینا لاجلی کا یہ دلارا ہے
اگر تو رحم کر اس پر سخاوت ہم دکھائیں گے
پاس میرے نانا حشر میں تیری کرائیں گے
تو بس دو گوند پانی دے دے ترس کا گلا ہوگا
سلا پائے گا میں شرمے تیرا ہامی خدا ہوگا
میرے نانا کی امت حشر تک تجھ کو دعا دے گی
نہیں تو تجھ کو یہ تاریخ ہستی سے مٹا دے گی
ہٹایا آپ نے دامن علی اصغرؑ کے چہرے سے
سبھی کوفی تھے یوں خاموش جیسے گنگے بہرے تھے
علی اصغرؑ کا تشنا لب دکھایا کوفی لشکر کو
مگر پھر بھی ذرا نہ ترس آیا کوفی لشکر کو
کہا یہ عمر صاد نے ذرا بھی رحم نہ کھانا
ملے گا بس یہاں سے موت کا بچے کو پروانا
یزیدی فوج نے توڑا ستم بے شیر اصغرؑ پر
اچانک حرملہ ظالم نے کھیچا تیر اصغرؑ پر
سپانہ چاہدا من میں علی اصغرؑ کو سرور نے
مگر جو تیر مارا حرملہ ظالم ستم گرنے
لگا جب حلق پر وہ تیر نکلا خوکا فبارہ
زمین کا پی فلک بھی دیکھ کر منظر یہ تھر آیا
جل کر حلق سے پھر تیر نے شاکو کیا زخمی
شہادت پائی اصغرؑ نے ہوئے وہ خلد کے راہی
حسین بنی علی کی گود میں
اصغرؑ نے دم توڑا
ستم گر ظالموں نے نن
اصغرؑ کو بھی نہ چھوڑا
ستم گر ظالموں نے نن اصغرؑ کو بھی نہ چھوڑا
ستم گر ظالموں نے نن اصغرؑ کو بھی نہ چھوڑا
رکھی ہے لاج دینِ
مصطفیٰؑ کی
آلِ حیدرؑ نے
نبی کے دین پر دی جان اپنی نن اصغرؑ نے
برچلوں میں ہوں اصغرؑ کا اپنے سدھ پیغمبر
اچھالا آسمان کی سمت بولا ارش رو رو کر
لہو اس بے گناہ کا نہ اچھالے اے میرے آقا
قیامت تک فلق سے پانی کا قطرانہ برسے گا
زمیں پر جب گرانا چاہا ہوں ماسوم اصغرؑ کا
زمیں تھرہ اٹھی بولی نہ ایسا کیجی اے آقا
لہو ماسوم کا سینے پہ میرے آپ نے ڈالا
قیامت تک زمیں سے ایک بھی سبزانہ نکلے گا
ملا چہرے پہ اصغرؑ کا لہو سبت پیغمبر نے
اٹھایا باہو میں اصغرؑ کا لاشا ابن حیدر نے
جب آیا خیمے میں اصغرؑ کا لاشا بیویاں
روئیں حسین ابن علی کے دھر کی سب شہزادیاں روئیں
جنابِ سیعتہ زینبؑ شہربانوں تڑپتی تھی
سکینہ اور کبرہ مزتربتی ہوش کھوتی تھی
بیعاں کیسے ہو ہم سے وہ بڑا غمناک منظر تھا
کرو تحریرِ غم ہر کسی یہ ہم سے ہو نہیں سکتا
جسی مختر حسین ابن علی نے گھر لٹایا ہے
مگر اسلام کا گلشن اُجڑنے سے بچایا ہے