ĐĂNG NHẬP BẰNG MÃ QR Sử dụng ứng dụng NCT để quét mã QR Hướng dẫn quét mã
HOẶC Đăng nhập bằng mật khẩu
Vui lòng chọn “Xác nhận” trên ứng dụng NCT của bạn để hoàn thành việc đăng nhập
  • 1. Mở ứng dụng NCT
  • 2. Đăng nhập tài khoản NCT
  • 3. Chọn biểu tượng mã QR ở phía trên góc phải
  • 4. Tiến hành quét mã QR
Tiếp tục đăng nhập bằng mã QR
*Bạn đang ở web phiên bản desktop. Quay lại phiên bản dành cho mobilex
Sorry, this content is currently not available in your country due to its copyright restriction.
You can choose other content. Thanks for your understanding.
Vui lòng đăng nhập trước khi thêm vào playlist!
Thêm bài hát vào playlist thành công

Thêm bài hát này vào danh sách Playlist

Bài hát hazoor pak ki zindagi ki dukh do ca sĩ Peer Ajmal Raza Qadri thuộc thể loại Au My Khac. Tìm loi bai hat hazoor pak ki zindagi ki dukh - Peer Ajmal Raza Qadri ngay trên Nhaccuatui. Nghe bài hát Hazoor Pak Ki Zindagi Ki Dukh chất lượng cao 320 kbps lossless miễn phí.
Ca khúc Hazoor Pak Ki Zindagi Ki Dukh do ca sĩ peer ajmal raza qadri thể hiện, thuộc thể loại Âu Mỹ khác. Các bạn có thể nghe, download (tải nhạc) bài hát hazoor pak ki zindagi ki dukh mp3, playlist/album, MV/Video hazoor pak ki zindagi ki dukh miễn phí tại NhacCuaTui.com.

Lời bài hát: Hazoor Pak Ki Zindagi Ki Dukh

Nhạc sĩ: peer ajmal raza qadri

Lời đăng bởi: 86_15635588878_1671185229650

اور حال پتہ کیا ہے
کہ محبوب پیدا نہیں ہوئے تو باپ چلے گئے
ابھی عمر چھوٹی تھی
ماں کی کھل کے زیارت ہونا تھی کہ اممہ بھی چلی گئی
دادا کندوں پہ کھلایا کرتے تھے
تو تاریخ کہتی ہے کہ دادا کا جنازہ اٹھا تو پیچھے پیچھے حضور بھی آنسو بہا رہے تھے
ایک وفادار بیوی ملی تو اپنے وقت پہ سیدہ ختیجہ بھی چلی گئی
ایک ٹائم آیا تو جناب ابو طالب بھی رخصت ہو گئے
مکہ سے حضور کو اتنا پیار تھا وہ چھوڑنا پڑا
صادق اور امین کہنے والوں نے حضور کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا
تو رسول کریم نے اپنی پیشانی پر کسی قسم کا کوئی شکن نہیں آنے دیا
رسول پاک مدینے آئے تو لوگ تلواریں لے کے بدر میں آگئے لڑنے شہید کرنے
حضور وہاں بھی کوئی پریشان نہیں ہوتے
میدان احد آیا
تو نبی پاک نے اپنے چچا کو کٹے ہوئے وجود میں دیکھا
نکلی ہوئی آنکھوں میں دیکھا
کٹے ہوئے ہونٹوں میں دیکھا
کسی جگہ میرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم شکوہ کرتے دکھائی نہیں دیتے
حضور کی وہ بیوی سیدہ آئیشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ
جن کی پاکی کا رب بیان کرے
ان پر منافقین نے الزام لگا دیا
اتنے پاک گھرانے پر لوگوں نے انگلی اٹھائی
میرے رسول نے آنسو بھائے
پر کسی جگہ حضور پریشان ہوئے
تے دکھائی نہیں دیئے
ہم ڈھونڈنے لگے
تلاش کرنے لگے
جب دروازہ رسول پہ گئے
تو حضور خود بولے
میرے رسول فرمانے لگے
میرے غلاموں یاد رکھنا
یہ صبر میری چادر ہے
یہ صبر میری چادر ہے
یہ حوصلہ میری چادر ہے
سیدہ آئیشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ
فرمائے کرتی تھی
لوگوں مجھے اللہ کی عزت کی قسم
میں نے حضور سے بڑھ کر
کسی کو صبر کرنے والا نہیں دیکھا
کسی کو حوصلہ کرنے والا
حضور سے بڑھ کے نہیں دیکھا
امت کو کیا ہو گیا
یہ چوراہوں پہ لڑ دئیے ہیں
چونکوں پہ لڑ دئیے ہیں
گھر ہیں کہ فساد کے آئینہ دار بنے ہوئے
لوگ آکے رو پڑتے ہیں
کہ جناب بھائیوں کا سلوک نہیں
کوئی دعا کر دیں
رو پڑتے ہیں جناب
اببہ کے ساتھ بھی لڑائی ہو جاتی ہے
کوئی تعویز دے دیں
ذرا ذرا حوصلہ نہیں
صبر نہیں
کسی جگہ ٹھہرنا تو سیکھو
میرے عزیز کسی جگہ
او یارو آونا
میدان کربلا کے دو سبق
استقامت اور صبر
کتنا درجہ ہے سیدنا بلال عبشی کا
میں تقریر کر دیتا ہوں
آپ سن لیتے ہیں
لیکن کبھی وہ انداز بھی تو دیکھو نا
حضرت بلال
او میرے دوست
جیل کے اندر بندے کے ہاتھ نہیں باندے جاتے
پیر نہیں باندے جاتے
پر لوگ جیل میں روتے ہیں
تڑپتے ہیں
سیدنا بلال کہتے ہیں میں کلمہ پڑھتا تھا
رات امیہ
مجھے باندھ کے رکھتا تھا
اور صویرے جب پتھر اچھی طرح
تپ جاتے تھے نا
تو لا کے باہر مجھے پتھروں پہ لٹا دیتا تھا
اور میرے وجود پر
بھاری بھرکم پتھر رکھ دیتا تھا
سننا ذرا
تصور میں لانا بھلا میں کیا کہنے لگا ہوں
حضرت احسان بن ثابت
رضی اللہ تعالیٰ انہوں فرماتے ہیں
میں مکہ مکرمہ آیا
کہ جو آج موزن بلال ہیں
میں نے ان کا یہ رنگ دیکھا
کہ مکہ کے بچوں نے ان کے گلے میں
رسی باندھ کے نا
تو آتھوں میں پکڑی ہوئی
اور مکہ کے بازاروں میں نا
ان کو کھینچتے ہیں لے جاتے ہیں
میں نے ایک شخص سے پوچھا
یہ کیا ماجرہ ہے کیا محمہ ہے
تو بتانے والوں نے بتایا
کہ یہ کالے رنگ کا عبشی غلام
مار سارا دن کھاتا ہے
اس کے ساتھ لوگ وہ
سلوک کرتے ہیں جو عذیتناک
اور خوفناک ہے
سارا دن مار کھاتا ہے
پر اپنی زبان پر خدا کا نام لیتا رہتا ہے
محمد مصطفیٰ کا نام لیتا رہتا ہے
او تینوں لب دیاں
آپ گواچے
سانوں اپنی خبر نہ کوئی
اب ایک نہ ساتھوں پارے
نکک گلیاں
انتہ آخ دے لوگ شدائی
اسی ننگ نموس دا ساڑ کے چولا
گل پہنے
تاج گدائی
اوے سجنہ اپنا آپ گوایا ہے
تان یار نے چاہتی پائی
بھائی
اس طرح کا لوگوں نے بھی انداز دیکھا
لیکن ہمارا یہ حال ہے
کہ کسی جگہ بھی ٹھہراؤ نہیں
کسی جگہ بھی ٹھہراؤ نہیں
کسی جگہ بھی صبر نہیں
کسی کام پر بھی استقامت نہیں
ہماری دوستیاں روز ٹوٹتی ہیں
تعلقات روز کمزور پڑتے ہیں
ہم بڑے جوش کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں
اور بڑے بڑے
اعلانیاں وعدے کرتے ہیں
کونسی چیز ہے جو ہمیں کمزور کر دیتی ہے
سوہ اس کے کہ ہمارا نفس کمزور ہے
سوہ اس کے کہ ہمارا نظریہ کمزور ہے
سوہ اس کے کہ ہمارے اندر وہ طاقت نہیں
جو ہمیں استقامت پہ لاکر کھڑا کرے
جو ہمارے اندر حوصلہ پیدا کرے
یاد رکھنا میدانِ کربلا کے اندر
حضرتِ سیدنا امامِ حسین
رضی اللہ تعالیٰ انہوں کا جو حوصلہ تھا
وہ اتنا مثالی تھا
اتنا مثالی تھا
اتنا مثالی تھا
ایک جنازہ گھر میں اٹھ جائے نا
اور خدا
اللہ معاف کرے وہ کسی جوان کا ہو
تو بڑے کی کمر
کئی کئی روز کھڑی نہیں ہوتی
لیکن کربلا کے اس شاہ سوار
کی کہانی بھی سننا میرے بھائی
جو اپنے کندے پہ
صبح سے لاشیں اٹھا کے لاتے ہیں
صبح سے
صبح سے امام علی مقام
لاشیں اٹھا کے لاتے ہیں
حضرت قاسم بن حسن کا لاشہ
اٹھا کے لاتے رکھا
حضرت علی اکبر شہید ہو گئے
آواز دی ابا جی سنبھالنا
تم لاش مبارک اٹھا کے رکھی
جناب علی اسگر کی لاش اٹھا کے رکھی
بھائی بڑے پیارے ہوتے ہیں
بڑے پیارے ہوتے ہیں
نہ مانے ہم اپنی
اولادوں کے سامنے پر بڑے پیارے ہوتے ہیں
اتنا مردی شکوا کریں
بھائی پانیان دیاں
باما ہوندے
بھائی پانیان دے ویری
بڑے پیارے ہوتے ہیں کیا کریں بھائی جو ہوئے
نہیں ان کی تکلیف صحیح جاتی
حضرت عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہ
مقام اٹھا کے لارہے تھے
ایک منٹ کے لیے رکے اور کہنے لگے
اللہ اب میری کمر کمزور پڑ گئی ہے
میرے بھائی چلا گیا
تو پیچھے سے نا
کچھ کمزور پڑ گئی ہے
اتنی ساری میتیں اٹھا کے
لا کے اتنا حوصلہ
حسین ابن علی کا
پھر جا کے امام علی مقام گرم ریز سے
تیمم کرتے ہیں
پھر وہ گھوڑے پہ بیٹھتے ہیں
پھر وہ ریجز پڑتے ہیں
پھر وہ خطبہ دیتے ہیں
پھر وہ حق کا اعلان کرتے ہیں
پھر وہ ظلم کو للکارتے ہیں
پھر وہ چھپن سال کے بڑاپے میں
جب میدان میں
گھوڑے کو ایڑی لگا کے آتے ہیں
اور اس طرح
کٹتے ہیں
یزیدیوں کی کمر کو گلوں کو
کہ عمر بن ساد کہتا ہے
اکیلے اکیلے نہ جاؤ
یہ کوئی معمولی ہے یہ علی حیدر کا لال ہے
اکیلے اکیلے جاؤ گے
تو لشکر کٹ دے گا
یک بار گی حملہ کرو
یک بار گی
پھر ہو سکتا ہے حسین تمہارے کابو آئے
امام علی مقام میدان کربلا میں
جب تیر کھا رہے تھے
تو تجھے حوصلہ سکھا رہے تھے
مجھے حوصلہ سکھا رہے تھے
جب وہ میدان کربلا میں نیزے کھا رہے تھے
زخم لے رہے تھے
تو ڈٹنا سکھا رہے تھے
حوصلہ کرنا سکھا رہے تھے
بات بات پہ کمزور پڑنے والوں
ملت کے جوانوں
ابھی تو تم نے بہت سارے
اجالے لانے ہیں
ابھی تو کئی اندھیروں سے لڑنا ہے
ابھی تو کئی شم میں جلانی ہے
ابھی تو بہت سارے گھر ہیں
جو منتظر ہیں کہ تم انقلاب لاؤ
ابھی تو بہت ساری آبادیاں ہیں
جہاں تم نے امن قائم کرنا ہے
ابھی تو بہت سارے شہر ہیں
جہاں سے تم نے ظلم مٹانا ہے
ابھی تو بہت ساری جگہیں ہیں
جہاں تمہارے نام کے دیب جلیں گے
جہاں تم جا کے اسلام کے نام کی
تخت ہی لگاؤ گے
ابھی تو بہت سارے منارے ہیں
جن پہ تم نے
رسول اللہ کے نام کا جھنڈا لگانا ہے
ابھی تو آگے پڑنا ہے
ابھی تو بہت سارا کام کرنا باقی ہے
اقبال کہنے لگے
کہ وقت رخصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
اور لوگو نور توحید
کا اتمام ابھی
باقی ہے
اور ایک شاعر اور بولے
وہ کہنے لگے مسلمانوں نہ گھبراؤ
خدا کی شان باقی ہے
ابھی اسلام زندہ ہے
ابھی قرآن باقی ہے
کافر کیا سمجھتے ہیں جو ہم سے
روز علجتے ہیں ابھی تو
کربلا کا آخری میدان باقی ہے
ابھی تو بڑھنا ہے آگے سفر
کرنا ہے کمزور نہ پڑے
اپنی زندگی کے اندر کسی جگہ بھی
بیماری بھی آ جاتی ہے
تکلیف بھی آ جاتی ہے
آزمائشیں بھی آ جاتی ہیں
غریبی بھی آ جاتی ہے
یہ آنے والی چیزیں ہیں تو آ جاتی ہیں
اپنی زندگی میں صرف
دو چار پانچ چیزوں کو لاغو کر لیں
ایک تو مخلص
زندگی گزاریں ریاکار زندگی نہ گزاریں
جو لوگ ریاکار ہوتے ہیں
وہ بزدل ہوتے ہیں
جو ریاکار ہوتے ہیں وہ دکاندار ہوتے ہیں
جو ریاکار ہوتے ہیں وہ اداکار ہوتے ہیں
جو ریاکار ہوتے ہیں
ان کے پاس ایک کریکٹر رہ جاتا ہے
اندر ان کے کچھ بھی نہیں ہوتا خالی ہو جاتا ہے
زندگی میں مخلص بنیں گے
تو جلیر ہو جائیں
اخلاص کے ساتھ آپ زندگی میں سفر کریں
آپ مخلص ہو جائیں
میرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا مخلص ہو جاؤ
ہو اللہ کے عرضہ والے ہو جاؤ
مقلس ہو جاؤ
تمہارا تھوڑا عمل بھی تمہارے لئے زیادہ ہو جائے گا
تمہیں کفائت کر جائے گا
تھوڑا عمل
اللہ کے علاوہ کسی سے ڈرنا چھوڑ دیں
غیر کا خوف دل سے نکال دیں
خوف نکال دیں
اپنی زندگی میں غیر کا خوف نکال دیں
نکال پھینکیں آپ امیروں کا خوف
نکال پھینکیں دنیا کیا کہے گی
یاد رکھنا عزتیں بھی رب دیتا ہے
زلتیں بھی اس کی مشیعت کا تقاضی ہوتی ہیں
رزق کا مالک بھی اللہ ہے
حضرت مولا علی سے کسی نے کہا
کہ آپ اپنے ساتھ ہارس کیوں نہیں رکھتے
گانڈ مین کیوں نہیں رکھتے
باڈی گارڈ کیوں نہیں رکھتے
تو حضرت علی فرمانے لگے
موت سب سے بڑی محافظ ہے
وقت سے پہلے آتی نہیں
آ سکتی نہیں
آپ غیر کا خوف نکال باہر پھینکیں
ایک جملہ میدان کربلا میں امام حسین نے کہا تھا
ایک جملہ
اور وہ جملہ اتنا طاقتور ہے
کہ اگر سونے کے پانی سے لکھا جائے
ہیروں سے تولا جائے
تو یہ ساری چیزیں کمزور پڑ جائیں
امام علی مقام میدان کربلا میں
جب گھوڑے پہ سوار ہوئے
اللہ اکبر کہہ کے
میدان میں آئے
اور آپ نے یزیدیوں سے کہا
کہ تم ظالم ہو جابر ہو
فاسق ہو
اطاعت تمہاری نہیں قبول کی جائے گی
اب بتاؤ لڑنا ہے کہ کیا کرنا ہے
جب وہ لڑنے کے لیے میدان میں آئے
تو امام نے ایک جملہ کہا
فرمانے لگے لوگو گواہ رہنا
آج میں نے عزتیں خرید لی ہیں
اور زلتیں دور کر دی ہیں
عزت ہے ہمارے پاس عزت
زلت دور ہو گئی
اگر اس کے ظلم سے چھپ کے بیٹھ جاتے
اگر ان تلواروں کے سامنے
کمزور پڑ جاتے
اگر اس بڑے لشکر کو پیٹھ دکھا دیتے
تو یہ عزت والا معاملہ
لو لو لوگو ہم نے عزتوں کا سودا کیا
ہم نے زلتیں بھگا دی
ہم نے وہی سودا کیا
جو ہمارے اجداد کا طریقہ تھا
جو ہمارے اسلاف کا طریقہ تھا
جو طریقہ ہم نے علی المرتضی سے سیکھا تھا
اور نبی مصطفیٰ سے سیکھا تھا
وہ طریقہ ہم نے کر دکھایا
اللہ کے غیر کا خوف نکال پھینکے زندگی
اور تیسری بات
حدف مقرر کریں
حدف
حدف مقرر کریں آپ کیا ہیں
آپ دین کے دائی ہیں
آپ دین کے مبلغ ہیں
آپ دین کو
مالی سپورٹ کرنے والے ہیں
آپ اخلاقی سپورٹ کرنے والے ہیں
آپ ایک تاجر ہیں
آپ کس طرح کر کے میدان میں ہیں
آپ ایک ویلفیر شخصیت ہیں
لوگوں کا بھلا کرنے والے ہیں
آپ کیا ہیں
اپنی زندگی میں اپنے اہداف مقرر کریں
بے مانا بے مقصد زندگی نہ گوئے
ہم نے حدف بڑا چھوٹا مقرر کی ہے
ایک مندے کا حدف ہے کہ میں نے کروڑ پتی بننا ہے
بن گیا وہ کروڑ پتی آپ کیا کریں
اب وہ ٹینشن میں ہے کیا کروں
یہ دکان خرید نہیں ہے خرید لی
اب کیا کریں اب ٹینشن میں
آگے کدھر جائیں ایک مندے کا حدف تھا
میں نے مزیر بننا ہے بن گیا
یہ چھوٹا حدف ہے یہ حدف کبھی بھی
آپ قبول نہ کریں ایک حدف
وہ تھا جو یزید نے اختیار کیا
کہ مجھے حکومت میں بیٹھنا ہے
ایک حدف وہ تھا جو عبیداللہ
ابن زیاد کا تھا کہ مجھے گورنر بننا ہے
ایک حدف وہ تھا
جو عمر بن سعد کا تھا
کہ مجھے رے کی حکومت لینی ہے
یہ ان لوگوں کے حدف تھے
اور ایک حدف حسین ابن علی کا تھا
امام علی مقام کا تھا
کہ مجھے جبر کے سامنے
ڈٹنا ہے ظلم کے سامنے
ڈٹنا ہے امام علی مقام کا
خون تو بے گیا
کربلا کی زمین تو رنگین ہو گئی
نہ
عبیداللہ ابن زیاد کی گورنری
بچی نہ شمر
کو حکومت ملی
نہ یزید کچھ کما سکا
نہ زیاد کا وہ ظلم
رہا نہ
یزید


یزید کی وہ جفا رہی
جو رہا تو نام حسین کا
جو رہا تو نام
جو رہا تو نام
حسین کا
جس سے زندہ رکھتی ہے کربلا
جو رہا تو نام حسین کا
چھوٹے حداف نہ مقرر کر
یہ کیا بات ہوئی
ایک کانسلری پہ سارا کچھ ہار دینا
ایک بچے کے میڈیکل کالج
کے داخلے پہ سارا کچھ ہار دینا
ایک ہلکی چیز سفارش پہ سارا کچھ ہار دینا
ایک بڑے آدمی کے نام فوٹو آگئی
اور تو سارا کچھ ہار کے بیٹھ گیا
نا نا اپنی قیمت
تھوڑی نہ لگا جگہ جگہ نہ بکا کر
جگہ جگہ نہ بکا کر
جگہ جگہ نہ اپنے آپ کو سیل کیا کر
ہمارے سودے ہو گئے
ہمیں غزور نے خرید لیا
مدینہ کی گلی میں سودہ
ہو گیا سودہ کس نام
پہ ہوا کس نام
پہ ہوا ہم نے صرف اتنا کہا
کہ یا رسول اللہ میدان مکشر
کہہ دینا کہ وہ دیکھو
ہمارا غلام آرہا
بس اتنی سی بات پہ سودہ ہوا
بک گئے تیہ کر لیا
اس کو میراج سمجھا بھائی
کمزور کیسے پڑ گئے ہم
کس مقام پہ کمزور پڑ گئے
کہاں جا کے ہمارے اندر کمزوری آئی
استقامت سبر
حوصلہ ڈٹنا مضبوط
ہونا
ہم نا
سوشل میڈیا
دیکھ کے رائے قائم کرتے ہیں
آج کل یہ ہو رہا ہے
تو لہذا آپ بھی یہ کر دیں
کل وہ ہو رہا ہے تو لہذا آپ بھی
وہ کر دیں
ہمارا نظریہ کتاب سنت ہے
ہمارا نظریہ وہ ٹرینڈ نہیں
جو آج کل فلانی جگہ پہ چل رہا ہے
ہمارا نظریہ ہمارے بزرگوں
کے چودہ سو سالہ نظریات ہیں
آپ چار پانچ شے خبریں
دیکھ کے نظریہ نہ بنایا کریں
نظریہ اللہ کی کتاب دیکھ کے
بنائیں رسول اللہ کا فرمان
دیکھ کے بنائیں پانچ سات
دس بیس انکر جہاں آپ کو
لے کے جائیں وہ والا ذہن نہ بنائیں
ذہن وہ بنائیں
جو ذہن ہمیں سیدنا
امام حسین نے عطا فرمایا
اپنی زندگی میں ایک تو
اخلاص لائیں
اللہ کے غیر کا خوف نکالیں
حدف مقرر کریں
اور مزاد جد و جہد والا بنائیں
جد و جہد والا
میرے حضرت صاحب
میرے تادو شریعہ
میرے شیخ میرے مربی
میرے محسن سرمایہ
حیات میری آنکھوں
میں بھی وہ جلوہ ہے
کہ میں نے ان کو دیکھا ہے
انہوں نے اپنی زندگی
ایک کونے سے شروع کی
پودی دنیا کو انہوں نے سفر کیا
انہیں پتا تھا
کہ بریلی شریف میں لاکھوں لوگ آتے ہیں
یہاں ارس ہوتے ہیں
لیکن ان کی ایک وسیعت ہے
وہ بہت ساری جگہ آڈیو ریکارڈنگ
بھی اس کی موجود ہے
حضرت نے فرمایا تھا میں زندگی میں
رسول اللہ کے دین کے لئے نکلا ہوا ہوں
میں جگہ جگہ جگہ جگہ سفر کرتا رہتا ہوں
میری وسیعت ہے
اس رستے میں اگر کہیں
میرا آخری وقت آئے تو مجھے بریلی شریف
نہ لے کے جانا
اسی راہ میں مجھے دفن کر دینا
اسی راہ میں
اسی جگہ دفن کر دینا میں چاہتا ہوں
اسی راہ پہ دفن ہو جاؤں
اسی جگہ
ادم سے لائی ہے ہستی میں
عرضو رسول
دیکھو کہ ہمیں کہاں کہاں
لی پھرتی ہے جستجو رسول
کہاں کہاں
لی پھرتی ہے
جستجو رسول
اور میں اپنی حیاتی تو قربان تھی
وہاں
محمد محمد پکین دے گزر گئی
احد نال احمد
سدین دے گزر گئی
کہاں کہ اسی رستے میں
اسی رستے میں
یعنی رستہ ہو
اور جب آخری وقت کا اعلان ہو
تو لوگ کہیں
کہ وہ تو حضور کے دین کی بات
بتانے گیا تھا
اور کوئی کہے وہ تو ابھی ابھی رسول اللہ
کا دین سنا کے گیا تھا
اور کوئی کہے کہ اس نے تو کل بھی
بادہ کیا تھا کہ وہ آئے گا
اور حضور کی بات سنائے گا
عدم سے لائی ہے نا حستی میں
ہمیں آرزو
بے رسول
لوگو دیکھو نا
ہمیں کہاں کہاں لیے پھرتی ہے
جستجو بے رسول
پھر جب ہی
نظارہ ہو میدان حشر
میں بے دم
کہ سب ہوں پیش خدا
اور میں روح بر روح بے رسول
اپنی زندگی میں
اہداف مقرر کریں
لوگو
ہم نے
اپنے بچوں کو
اولادوں کو
قبیلوں کو
بستیوں کو
برادریوں کو
بڑا کچھ دیا ہے
آؤ نہ آج
ہم اللہ کے حضور
کچھ ارادے کریں
کہ ہم اپنے دین کو بھی کچھ دیں گے
ہم اپنے مذہب کے لیے
بھی کچھ کریں گے

Đang tải...
Đang tải...
Đang tải...
Đang tải...