میں آج سناؤں تمہیں کربل کا فسانہ
دی پر فضا ہوا ہے محمد کا غرانہ
جب آل محمد پہ اڑی گم کی غٹائے
میدان کربلا سے آتی تھی صداعے
ہائے سکینہ سکینہ
کربلا کی سر زمیں پہ یہ تیرا خونبا لٹا
ہائے سکینہ سکینہ کربلا کی سر زمیں پہ یہ تیرا خونبا لٹا
ہائے سکینہ سکینہ آگ خموں میں لگائی اور انہیں لوٹا گیا
ہائے سکینہ سکینہ کربلا کی سر زمیں پہ یہ تیرا
خونبا لٹا
دوکے سے بلایا انہیں
کربل کی زمیں پر
سہرا کی تیز دوب میں تھے آل پیمبر
ہائے سکینہ سکینہ
کربلا کی سر زمیں پہ یہ تیرا خونبا لٹا
ہائے سکینہ سکینہ ہائے سکینہ سکینہ
کربلا کی سر زمیں پہ یہ تیرا خونبا لٹا
لے کر چلے فرات پہ اسغر کو جب حسین
آنکھوں کے سامنے لیے وہ اپنے دل کا چھن پوتا ہے علی کا وہ نوازہ رسول کا
بانی پلا دو پیاس کو صدقہ رسول کا ظالم نے ایک تیر جوا ہاتھ میں لیا
سکینہ سکینہ ہائے سکینہ سکینہ کربلا کی سر زمیں پہ یہ تیرا خونبا لٹا
اسغر کا علم سینے پہ شبیر کا غم ہے
قاسم کی تڑپ زینبؑے دلگیر کا غم ہے
بو سے لیے ماتھے کے کلے جیسے لگایا ماتھے پہ لگی ریت
کو وہ خون سے دھونا سینے سے لگا کر تجھے عباس کا رونا
سکینہ سکینہ ہائے سکینہ سکینہ کربلا کی سر زمیں پہ یہ تیرا خونبا لٹا
لٹا آگا
لٹا آگا
لٹا آگا
شبیر نے جب بہن سے
لیرن کی اجازت
راہِ خدا میں دینے چلے خود کی شہادت
اللہ نگے باہ محمد کی آنکا رخنا خیال تم میرے بیمار لال کا
کربلا کی سرزمی پہ یہ تیرا پنبا لٹا
ہائے سکینہ سکینہ ہائے سکینہ سکینہ
کربلا کی
سرزمی پہ یہ تیرا پنبا لٹا
کربل میں اہل بیت وہ غم دیکھتے رہے جس سے چشم پر خوبی نم دیکھتے رہے
پیاسے غلے پہ تیگے ستم
دیکھتے رہے
بیلی پہن کے ہیرہ جو عابد چلے جا رو کر فرشتے ان کے قدم دیکھتے رہے
سکینہ سکینہ ہائے سکینہ سکینہ کربلا کی سرزمی پہ یہ تیرا پنبا لٹا
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật