حیلا کر وہ سر اپنا
میرے کاندھے پہ رکھ دینا
زلف سہلا ہوں
جو
تو ہس کے ہاں کر دینا
کب سے ہے انتظار
جذبات اے رنجش کا
دل میرا عادی ہے
کھل کے بکھرنے کا
تیری ساسے چلتی ہے تیرے چلنے سے ہی تھم نہ جانا کہیں
تو جو تھم گیا تو تھم جائے زندگی مرنا چاہوں کہیں
ایک حل کا احساس ہو
تم وہ شایروں کی بات ہو
تم میری تازہ تازہ یاد ہو
میری جاں میرے تم حیات ہو
تم میری تازہ تازہ یاد ہو
میری جاں میری تم حیات ہو
نظروں میں
کر کے جا دیکھو تو شامل ہمیں
جبکہ پلک تیری گر جائے پتوں سے پت جڑ میں
پیسوں کی بات نہیں ہے بس یہ پیار ہے
تو سنتا نہیں ہے ہم پھر بھی گاتے ہیں
تیری ہی بہوں میں رہنا چاہتے ہیں
تیری ہی ساثوں میں بینا چاہتے ہیں
تم سے نہیں کوئی اس جہان میں
جیسے کوئی پرانا گیت ہو اس زمان میں
ایک ہلکہ احساس ہو
تم وہ شاعروں کی بات ہو
تم میری تازہ تازہ یاد ہو میری جا میرے تم حیات ہو
تم میری تازہ تازہ یاد ہو میری جا میرے تم حیات ہو