پرواح جو سیمتہ ہم لگے
دروازوں کو تو زنگھا گئے
دیواروں کو تو رنگ لگے
میدر بے کرنے جھنگ لگے
چھیر دو نکاب سارے پتہ چلے کون میرا
ہمراس پاس تیرے پاس میرے کون
میرا بھوکا یہاں اپنے ہی ہاتھوں سے نیاز
تیرا کون اپنی بات پہ اور کون بھیرا
چھیر دو نکاب سارے پتہ چلے کون
میرا ہمراس پاس تیرے پاس میرے کون
میرا بھوکا یہاں اپنی ہاتھوں سے نیاز
یہاں کون اپنی بات بھی اور کون پھیرا
دوگلوں کی ٹولی دو میں کس کی زمانہ
تب چھوٹے موٹے جھنڈے یہاں بنتے عدالت
ہے یہ غفلت کی بازی سب
تخت کی ہچام حسرت
یہاں چور پر ضمیر کیسے رازی
چلنا ہے سنبل کے یہاں راستے ہیں خراب
جو میرا خاص اس کے خاص کا بھی کوئی خاص
اب چیخوں بھی تو کون سنے میری آواز
آغاز گفتگو کے بعد راز سارے فاش
یہاں کون ہمراس
یہاں صاف دیکھے اکس جو تھے چھپے ہوئے اکس
ان شخصوں کے پیچھے
ویسے حق ہی تو نیچے یہاں فرض کو گھسی دے
حقدار کو یہ پیٹے ہمراس
تو سب ہی ہے
گزری خود پہ ہی کہانی پھیلی دوسروں کی زبانی
نہ جانو کون وہ خاص تھا جو بنا ہمراس تھا
کیوں میں خود کو ہی کھوش دیکھ دیا وہ راز تھا
جو بھی تھا وہ مایہ ہی تھا پھر میرا راز نمائی ہی تھا
بات چیت ختم
تو سنگت میری خواہ ستم میں
اب تو سایہ میرے حوالے ہی
اور میں سائے کی حراست میں
پیچھے میرے گھومے اور میں بھاگو شناکت سے رکھوں راز
اپنی روح میں پیٹی چھپ لگا کے
کہ یہاں پہ نہیں اپنے یہ تو سارے ہی سام ہے
ڈسے دیکھے دلہ سے سارے اڑے نکاب ہے
رواج سمتان آگے
دنیا سو کو تو سان کھا گیا
دیواروں کو تو رنگ آگے
نیتے پہ کنے چاند آگے
رواج سمتان آگے
چیر دو نکاب سارے پتہ چلے کون میرا
ہمراس پاس دیرے پاس میرے کون میرا
بھوکا یہاں اپنے ہی ہاتھوں سے نیاس دیرا
کون اپنی بات پہ اور کون پھیرا
چیر دو نکاب سارے پتہ چلے کون میرا
ہمراس پاس دیرے پاس میرے کون میرا
بھوکا یہاں اپنے ہی ہاتھوں سے نیاس دیرا
کون اپنی بات پہ اور کون پھیرا
راستے بھی دیکھے میں نے فاصلے بھی دیکھے
میں نے توڑی ہیں قسمیں سب سے واسطے بھی لے کے
میں نے اپنے بھی دیکھے آہ ہوتے بھی پر آئے
سپنے بھی سارے بھی نہ نیم کے ہی آئے
میں نے ہاتھوں میں مٹی لیے ہیرے دفن آئے
میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو امیدیں کیوں ستائے
آنکھیں پن پسے پردہ مجھے ماضی کیوں ستاتا
جب میں آنکھیں کھولوں سامنے کچھ نظر کیوں نہیں آتا
سچ تو میں بڑا ہوا تم کہہ رہے مجھے کافر
پس پر کے کشتا کو ہم سے دن لگاتے
اس چہرے کا نور سارا تھل گیا ہے
دیکھنا ماں تیرا بیٹا یہاں رول گیا ہے
دنیا یہ ساری بنی دشمن میری جان کی
لائچی یہ سارے لگے بولی انسان کی
کسوں میں ڈھونڈے مجھے کس تو میں لوٹے
میرے چونلوں کو چوڑے مجھے حصوں میں دوڑے
کرتے ایسے دعوے میری جامعہ بے زبانی
تم دولتے تر آزو میں جیسے میں انسانی
میں نے ہاتھوں کو سمیٹ کے تکلیف سے بچایا
وہ سارے کرتے حملے بن کے پھر دے میرا سایہ
یہاں کے رواج راست سب کے سامنے کھول دو
ہم راست بھاٹے راست تو پھر راگ میں ہی چھوک دو
چیر دو نکاب کے تم سب کو ہی دیکھ گئے
سا برابر ہم راست دل پہ گئے
رواج سندھ رنگ آگے
دروازہ کو تو سندھ آگے
دیواروں کو تو رنگ آگے
میرے دل پہ کنے جانگ آگے
چیر دو نکاب سارے پتہ چلے کون میرا
ہم راست پاس تیرے پاس میرے
کون میرا بھوکا یہاں اپنی ہاتھوں سے نیاز
تیرا کون اپنی بات پہ اور کون پھیرا
چیر دو نکاب سارے پتہ چلے کون میرا
ہم راست پاس تیرے پاس میرے
کون میرا بھوکا یہاں اپنی ہاتھوں سے نیاز
تیرا کون اپنی بات پہ اور کون پھیرا