ایلیہ ایلیہ سکینہ
سدا غریب نے دی ہے
سکینہ لوٹاؤ
یہاں باس نہیں ہے
سکینہ لوٹاؤ
تمہاری عمر ہے
چھوٹی برست تیر بڑھے
کہ گرد فارم
بوجھ کھڑی ہے
سکینہ لوٹاؤ
تمہاری سینے پہ
سونے سجے مکت بھی
گلو پاک کو تکتا
ہے
میں
میرا
کات بھی
میرا
کات بھی
غربت کی انتہا ہے
زہرا کے چین پر
غربت کی انتہا ہے
زہرا کے چین پر
گنتی ہے چار سال کی
سکینہ لوٹاؤ
گرتی ہے چار سال کی
بچی حسین پر
غربت کی انتہا ہے
زہرا کے چین پر
غربت کی انتہا ہے
زہرا کے چین پر
بیٹھیں کے سامنے ہی
تیرے ستمیں
چلائیں
بیٹھیں کے سامنے ہی
سیکی سے
بیٹھیں کے سامنے ہی
تیرے ستم
چلائیں
توڑی گئی ہے برچیاں
سنعómo
توڑی گئی ہے برچیاں
ہہاں
گولے
جب
قربت کی انتہا ہے زہرا کے چین میں
قربت کی انتہا ہے زہرا کے چین میں
ایسے نہ مار ظالم سے روز کا ہے پیاسا
ایسے نہ مار ظالم سے روز کا ہے پیاسا
روتے ہیں میرے بابا
بینا کے بین پر
قربت کی انتہا ہے زہرا کے چین میں
قربت کی انتہا ہے زہرا کے چین میں
کانوں رکھا ہوا تھا قرآن پر شقین
کانوں رکھا ہوا تھا قرآن پر شقین
کائنات بھی پیدا ہے
کائنات بھی پیدا ہے
کائنات بھی پیدا ہے
جس کی نالین پر
قربت کی انتہا ہے زہرا کے چین میں
قربت کی انتہا ہے زہرا کے چین میں
پیر چاہیے تجھے دل
میں خود اتار دل
پیر چاہیے تجھے دل
میں خود اتار دل
میں خود اتار دل
خرج چلا نہ ایسے
خرج چلا نہ ایسے
خرج چلا نہ ایسے
شہبشا قنبر
بربت کی انتہا ہے زہرا کے چین میں
پالوں کو چھوڑ ظالم بیٹی ہے مر نہ جائے
پالوں کو چھوڑ ظالم بیٹی ہے مر نہ جائے
نہ ماریوں تماچے میری نوریل پر
قربت کی انتہا ہے زہرا دے چین میں
قربت کی انتہا ہے زہرا دے چین میں
اے قمر کربلا میں چلنے لگا تھا خنجر
اے قمر کربلا میں چلنے لگا تھا خنجر
بادل رہو کے بر سے
ساری دارین پر
بادل رہو کے بر سے
قربت کی انتہا ہے زہرا دے چین میں
قربت کی انتہا ہے زہرا دے چین میں
زہرا دے چین میں
زہرا کے چین بر
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật